سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) فیض حمید پر فرد جرم عائد
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ ملکی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی ) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق رواں برس بارہ اگست کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی تھی اور اب ان کے خلاف باضابطہ طور پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال کرنے کے الزامات پر چارج شیٹ فائل کر دی گئی ہے۔فیض حمید سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں 2019ء سے 2021 ء تک تین سال آئی ایس آئی کے سربراہ رہے تھے۔
پاکستانی فوج کی لیگل برانچ سے منسلک رہنے والے سابق افسر اور وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم خواجہ کا کہنا ہے کہ فیض حمید کے خلاف لگائے گئے الزامات سنگین نوعیت کے ہیں اور انہیں سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نمائندہ بصیر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ ہمارے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں، جہاں اسی ایکٹ کی خلاف ورزی پر ملزمان کو سزائے موت تک سنائی گئی ہے۔اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئےکرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا تھا، ”یہ اب کورٹ مارشل کی سماعت کرنے والی فوجی عدالت کے جج فیصلہ کریں گے کہ فیض حمید نے آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی، جو خلاف ورزی کی، اس کے نتائج یا ان کے اثرات کتنے نقصان دہ تھے، اسی کے بعد ان کی سزا کا تعین کیا جائے گا۔آئی ایس پی آر کی جانب سے آج بروز منگل جاری کیے گئے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران ملک میں انتشار اور بدامنی سے متعلق پرتشدد واقعات میں لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے ملوث ہونے سے متعلق علیحدہ تفتیش بھی کی جا رہی ہے، ان پرتشدد اور بدامنی کے متعدد واقعات میں نو مئی سے جڑے واقعات بھی شامل تفتیش ہیں۔
فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو قانون کے مطابق تمام قانونی حقوق فراہم کیے جا رہے ہیں۔ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کے ضوابط کے تحت اب ملزم (فیض حمید) کو وکیل صفائی کی خدمات حاصل کرنے کا موقع دیا جائے گا، اس کے بعد ان کے خلاف مقدمے کی کارروائی آگے بڑھے گی۔جنرل فیض حمید کے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات سے متعلق کرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ پاکستانی قانون کے مطابق کوئی بھی سرکاری افسر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال گزر جانے تک سیاسی معاملات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ان کا مزید کہنا تھا، ” لیکن فیض حمید کا معاملہزیادہ حساس اس لیے ہے کہ دو سال قبل ایسی قانون سازی کی گئی تھی، جس میں کسی بھی حساس عہدے پر رہنے والے سرکاری افسر کے لیے پانچ سال تک کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، تو آئی ایس آئی کے سربراہ سے زیادہ حساس کون سا عہدہ ہو گا؟‘‘
نو مئی کے واقعات پر مقدمات
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے نو مئی 2023ء کو فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) پر حملہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان سمیت دیگر نامزد ملزمان بشمول قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں شبلی فراز، شہباز گل، مراد سعید، حماد اظہر، زلفی بخاری اور صداقت عباسی پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے ان کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی تھی۔اب فیض حمید پر عائد کی گئی فرد جرم میں انہیں بھی نو مئی کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) مسعود احمد خان کا کہنا ہے کہ فیض حمید پر نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلنا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
نمائندہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت پہلے ہی فوج کے ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل، تین میجر جنرلز اور سات بریگیڈیئرز کو ملازمتوں سے برخاست کیا جا چکا ہے۔مسعود خان کے بقول فیض حمید کا مقدمہ صرف اس لیے زیادہ توجہ حاصل کر رہا ہے کہ یہ ایک ہائی پروفائل مقدمہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیض حمید کے خلاف کارروائی شروع کر کے فوجی قیادت نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ فوج ڈسپلن کا پابند ایک ادارہ ہے اور اس کے نظم وضبط پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
تاہم دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کا موقف رہا ہے کہ نو مئی کے مقدمات صرف سیاسی انتقامی کارروائی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج ضرور کیا گیا تھا مگر پر تشدد واقعات میں پی ٹی آئی کے لوگ ملوث نہیں۔ پی ٹی کا کہنا ہے کہ پلانٹڈ لوگوں کو مظاہرین کے اندر داخل کر کے توڑ پھوڑ او جلاؤگھیراؤ کرایا گیا تاکہ پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار کی جا سکے۔تحریک انصاف کی طرف سے بار بار یہ مطالبہ کیا گیا کہ اس حوالے سے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے، جو یہ تعین کرے کہ پرامن مظاہروں کو پر تشدد بنانے والے کون لوگ تھے۔