اسرائیل کی دمشق کی جانب پیشقدمی کے اہم مقاصد کیا ہیں؟
شام کی اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے غاصب اسرائیل اسے محورِ مزاحمت سے دور کرنے اور اردن یا مصر کی طرح ایک دوست ملک میں تبدیل کرنے کا خواہاں ہے۔غاصب صیہونی ریاست نے حالیہ دنوں میں شام پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے ہیں، جن کی تعداد امریکی اور عبرانی رپورٹس کے مطابق، 250 سے 300 کے درمیان بتائی گئی ہے۔ یہ حملے شام کے مختلف علاقوں میں کیے گئے، جن میں درعا، القنیطرہ، دیرالزور، الحسکہ اور یہاں تک کہ بندرگاہ لاذقیہ شامل ہیں۔ ان حملوں کے ساتھ غاصب اسرائیلی فوج نے ایک عجیب و غریب اقدام کرتے ہوئے زمینی طور پر شام کی سرزمین میں داخل ہوکر مزید پیش قدمی کی ہے۔ابتدائی طور پر اسرائیلی فوج نے اپنے ٹینکوں کو گولان کی پہاڑیوں اور القنیطرہ کے درمیان حائل علاقے میں داخل کیا۔ بعد ازاں، اس علاقے سے آگے بڑھتے ہوئے شام کی سرزمین میں مزید پیش قدمی کی اور کئی علاقوں کو قبضے میں لے لیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے 1974 کے معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فوج کو مزید پیش قدمی کے احکامات دیے، جس کے بعد اسرائیلی فوج نے جبل الشیخ جیسے اسٹریٹجک مقام پر قبضہ کرلیا۔
سوال یہ ہے اس طرح شام کی زمین پر دراندازی کے ذریعے غاصب صیہونی ریاست کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ تل ابیب کے مقاصد کیا ہیں؟اس سوال کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں غاصب صیہونی ریاست کے طویل المدت و مختصر المدت اہداف کو سمجھنا ہوگا۔صہیونی ریاست کے ان مسلسل حملوں اور پیش قدمی کا مقصد شام کو مزید کمزور کرنا اور اس کی دفاعی و فوجی صلاحیتوں کو مفلوج کرنا ہے۔ اسرائیل شام کو “لبنان دوم” میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تاکہ شام کی فضائی حدود پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکے، جیسا کہ لبنان کی فضائی حدود میں غاصب اسرائیل آزادانہ طور پر کارروائیاں کرتا ہے۔شام کی اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے غاصب اسرائیل اسے محورِ مزاحمت سے دور کرنے کا خواہاں ہے۔ اگر ممکن ہوا تو غاصب اسرائیل شام کو اردن یا مصر کی طرح ایک دوست ملک میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، جیسا کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے ذریعے مصر کو دوست بنایا گیا۔ لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم شام کو ایک ایسا ملک بنانا چاہتا ہے جہاں اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہ ہو۔
غاصب صیہونی ریاست کے اہم اہداف
1. قلیل المدتی مقاصد:
غاصب اسرائیل اور امریکہ چاہتے ہیں کہ شام کے مخالفین مشرقی فرات کی جانب پیش قدمی نہ کریں، خاص طور پر ترک حمایت یافتہ مخالفین۔ ان کا مقصد کرد ملیشیا کے زیر کنٹرول علاقوں کو محفوظ رکھنا ہے تاکہ وہاں موجود وسائل اور اسٹریٹجک مقامات پر اسرائیل اور امریکہ کا کنٹرول برقرار رہے۔
2. طویل المدتی مقاصد:
غاصب اسرائیل کا اصل ہدف شام کی نئی حکومت سے تعلقات کو معمول پر لانا اور اسے مجبور کرنا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے۔ اس مقصد کے لیے اسرائیل مزید علاقوں پر قبضہ کرکے دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو شام کو مکمل طور پر کمزور کر کے اسے لبنان کی طرح ایک غیر مستحکم ملک بنانا اسرائیل کا دوسرا متبادل ہدف ہے۔یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اسرائیلی حکومت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت شام کو ایک نئے انداز میں کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس میں امریکہ کا ساتھ اور علاقائی اثر و رسوخ شامل ہے۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے غاصب اسرائیل کا بنیادی مقصد شام کی نئی حکومت سے مراعات حاصل کرنا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، اسرائیل نے شام کے گولان کے زیادہ تر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ اس علاقے کا ایک انچ بھی شام کو واپس دینے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے اسرائیل شام کے اندر مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ شام کی نئی حکومت کو تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور اسرائیل کو کئی دہائیوں کی جنگ اور دشمنی کے بعد تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔غاصب اسرائیل ان نئے علاقوں کو بطور دباؤ استعمال کرے گا، جن پر اس وقت اس کا قبضہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل شام کو “دوسرا مصر” بنانا چاہتا ہے، تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے بعد شام کی نئی حکومت پر ایک نیا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ مسلط کیا جا سکے۔ اگر یہ مقصد پورا نہ ہو، تو اسرائیل شام کو “دوسرا لبنان” بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس دوران، شام میں غاصب اسرائیل مخالفین کی طرف سے اسرائیل، القدس، اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں دیے جانے والے بیانات تل ابیب کی تشویش کو مزید بڑھا رہے ہیں اور اسے اپنے توسیع پسندانہ عزائم میں تیزی لانے پر مجبور کر رہے ہیں۔بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد تابڑتوڑ حملے اسرائیلی ریاست کے وسیع اہداف تک پہنچنے کا مقدمہ ہیں۔