آئینی بینچ: بے نظیر بھٹو کی درخواست آج 28 سال بعد سماعت کے لیے مقرر
سپریم کورٹ آف پاکستان کا آئینی بینچ آج یعنی بدھ کو 1997 میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی جانب سے ان کی (1993۔96 کی) حکومت کے خاتمے کو درست قرار دینے سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواست کی 28 برس بعد سماعت کر رہی ہے۔عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ پر موجود اسلام آباد رجسٹری کے آئینی بینچ کی کاز لسٹ کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی بینچ درخواست کی سماعت کرے گا۔
بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی شامل ہیں۔آج کی سماعت میں درخواست گزاروں اور انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے وکلا کے علاوہ اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان عدالت میں پیش ہوں گے۔29 جنوری 1997 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی بینچ نے فیصلے میں اس وقت کے صدر سردار فاروق خان لغاری کے ہاتھوں پانچ نومبر 1996 کو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی بحیثیت چیف ایگزیکٹیو برطرفی اور وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی کی تحلیل کو درست قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ کا آئینی بینچ
مذکورہ بالا فیصلے کے فوراً بعد پٹیشنرز سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی نے ججمنٹ پر نظر ثانی کی درخواست (ریویو پٹیشن) دائر کی تھی، جو عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت مقدمات کی زیادتی (بیک لاگ) کے باعث 28 سال تک نہ سنی جا سکی۔سپریم کورٹ آف پاکستان کی اس مہینے کے شروع میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد نومبر 2024 کے شروع میں 60 ہزار تھی، جو دسمبر میں کم ہو کر 50487 رہ گئی تھی۔بڑی تعداد میں مقدمات کی موجودگی کے باعث عدالت عظمیٰ میں کیسز کی اکثریت التوا کا شکار ہوتی رہتی ہے، جب کہ آئینی مسائل سے متعلق درخواستوں پر طویل سماعتیں دوسرے سائلین کے لیے کوفت کے علاوہ وقت اور وسائل کے ضیا کا باعث بنتی ہیں۔
اس سال 21 کتوبر کو پاکستان کی پارلیمان نے 1973 کے آئین میں 26 ویں ترمیم کی منظوری دی، جس میں دوسری چیزوں کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی بینچ کی تشکیل پر بھی اتفاق کیا گیا۔اسی تناظر میں پانچ نومبر کو جوڈیشل کمیشن نے دو ماہ کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات ججوں پر مشتمل آئینی بینچ کے قیام کی منظوری دی تھی، جس نے 14 نومبر سے مقدمات کی سماعت شروع کی۔آئینی بینچ کے قیام کا مقصد سپریم کورٹ میں دائر ہونے والی آئین سے متعلق درخواستوں کو الگ سے سننا اور نمٹانا ہے، جس سے دیگر سائلین کے مقدمات کی سماعت اور فیصلوں میں سرعت پیدا ہو گی۔آئینی بینچ کے قیام کے علاوہ مقدمات کا بیک لاگ جلد از جلد نمٹانے کی غرض سے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔
بے نظیر بھٹو کی درخواست پر فیصلہ
سابق صدر سردار فاروق خان لغاری نے اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت پردوسرے الزامات کے علاوہ ان (بی بی) کے حکم کے تحت ججوں، سیاسی رہنماؤں اور فوجی اور سول حکام کے ٹیلیفون کو انٹیلیجنس بیورو کے ذریعے غیر آئینی طریقے سے ٹیپ کرنے کا الزام لگایا تھا۔تاہم درخواست گزار نے الزامات کو رد کرتے ہوئے خود فون ٹیپنگ کا شکار ہونے کا دعویٰ کیا تھاسپریم کورٹ بینچ کے چھ ججوں نے صدارتی حکم کو برقرار رکھا، جب کہ ایک رکن نے قومی اسمبلی، وزیر اعظم (درخواست گزار) اور ان کی کابینہ کی بحالی کی حمایت کی۔
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 14 کے ذریعے ضمانت دی گئی رازداری کے حق کے تناظر میں ٹیلی فون ٹیپنگ اور چھپنے کے استعمال کی درستگی کا تعین کیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کی ضمانت دیے گئے بنیادی حقوق کو شامل کرنے کے لیے آئین کو آزادانہ اور فائدہ مند انداز میں پڑھا جانا چاہیے اور آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت ’انسان کا وقار‘ اور ’گھر کی رازداری‘ ناقابلِ تسخیر ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا گیا کہ ’آرٹیکل 14 کے تحت فرد کی رازداری صرف گھر یا جسمانی حدود تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے عوامی مقامات تک بھی بڑھایا گیا ہے۔درخواست گزار کی حکومت کی طرف سے اختیار کردہ فون ٹیپ کرنے نے آرٹیکل 14 کی ضمانت دی گئی رازداری کے حق کی خلاف ورزی کی۔
فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ ’عدلیہ کی خودمختاری اہم ہے۔ اس لیے ججوں کی پرائیویسی کو یقینی بنانا ضروری تھا کیونکہ اس سے ان کی اپنے فرائض کی انجام دہی کی صلاحیتوں کو نقصان پہنچے گا۔‘عدالت نے آئین کے آرٹیکل 9 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’فون ٹیپ کرنے کی تکنیک نہ صرف رازداری کے حق زندگی اور آزادی کے حق کی بھی خلاف ورزی کرتی ہے اور ججوں کے فرائض کی موثر ادائیگی کے لیے رازداری ضروری ہے، جس میں نجی طور پر معاملات کی سماعت اور فیصلے کرنا شامل ہے۔
عدالت نے مزید لکھا کہ آئین کا آرٹیکل 19، جو آزادی اظہار اور اظہار رائے کا تحفظ کرتا ہے، کے تحت بھی فون ٹیپ کرنا غلط ہے کیونکہ اس سے شہریوں کی آزادی کے ساتھ بغیر کسی پابندی کے اپنی بات کہنے اور اظہار خیال کرنے کی آزادی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔اس طرح، رازداری کے حق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، آرٹیکل 19 کے ذریعہ بیان کردہ آزادی اظہار کے حق کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔فون ٹیپ کرنے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے عدالت نے کہا کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ان تکنیکوں کو مجاز اور/ یا ریگولیٹ کرتا ہو۔ لہٰذا قانون کی عدم موجودگی میں اگر اس طرح کے کاموں کو انجام دینے کی ضرورت ہو تو عدالت سے یا اس کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی سے اجازت لینا پڑے گی۔ عدالت نے ٹیلی فون ٹیپ کرنے اور چھپنے کے عمل کو غیر آئینی اور آئین کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔