چین پاکستان مشترکہ فوجی مشقیں، بڑھتے ہوئے سکیورٹی تعلقات
چین پاکستان انسداد دہشت گردی مشق واریئر ایٹ اس سال نومبر کے آخر میں شروع ہوئی اور دسمبر کے وسط تک جاری رہے گی۔ دونوں ممالک کی افواج نے مشترکہ طور پر آخری بار 2019 میں انسداد دہشت گردی مشق میں حصہ لیا تھا۔ یہ مشترکہ فوجی مشق پاکستان میں چینی شہریوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے بعد سامنے آئی ہے۔اکتوبر میں کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے باہر بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کے ہاتھوں دو چینی انجینیئرز کی خودکش بم دھماکے میں ہلاکت اور نجی سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں دو چینی کارکنوں کے کراچی میں قتل کے بعد سے اسلام آباد پر بیجنگ کا دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ چینی شہریوں کو پاکستان میں سکیورٹی فراہم کرنے کی اجازت دے۔
حالیہ مہینوں میں چین نے پاکستان پر سفارتی دباؤ بڑھایا کہ وہ ملک میں چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات کرے۔31 اکتوبر کو پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سے چینی شہریوں کی حفاظت اور ان کو لاحق خطرات کو روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات کی ناکامی پر سوال اٹھایا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’چین پر صرف چھ ماہ میں دو بار حملہ ناقابل قبول ہے‘ اور انہوں نے اسلام آباد پر زور دیا کہ ’اس طرح کی دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مجرموں کی شناخت کر کے سزا دی جائے۔پس پردہ چین نے پاکستان کے حفاظتی اقدامات سے مایوسی ظاہر کی ہے، جب کہ پاکستان نے سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے 15 ہزار فوجی اور نیم فوجی اہلکاروں پر مشتمل ایک خصوصی یونٹ قائم کیا ہے۔
اسی طرح گوادر میں تعینات بحری یونٹ بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی حفاظت کے لیے مامور ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں پولیس فورس کے اندر خصوصی یونٹس بھی بنائے گئے ہیں۔چینی وزارت دفاع ان حفاظتی ٹیمیوں کے اخراجات کا ایک حصہ ادا کرتی ہے لیکن اس کے باوجود چین کو مطلوبہ نتائج نہیں ملے۔حالیہ دو ملاقاتوں میں چینی حکام نے پاکستان کی جانب سے منظور شدہ سکیورٹی پروٹوکول پر عمل نہ کرنے کے ثبوت بھی فراہم کیے ہیں۔کراچی میں خودکش حملہ ایک اہم نکتہ تھا۔ اس سلسلے میں چین نے ستمبر میں پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ایک مشترکہ سکیورٹی میکنزم کی تجویز بھی پیش کی تھی۔اس صورت حال میں واریئر ایٹ کی فوجی مشق نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر پبی میں منعقد ہو رہی ہے۔ پیپلز لبریشن آرمی ویسٹرن تھیٹر کمانڈ کے تقریباً 300 فوجی اس مشترکہ مشق میں حصہ لے رہے ہیں، جہاں انسداد دہشت گردی کے خاتمے اور سٹرائیک آپریشن کی مشقیں منعقد ہوں گی۔
ان مشقوں کا مقصد آپریشنل تبادلوں اور تعاون کو گہرا کرنا ہے، جہاں فریقین متعدد سطحوں پر مشترکہ تربیتوں میں مصروف ہیں۔ مشترکہ مشقوں میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تیار کردہ ماحول میں آپریشنل منصوبہ بندی اور لائیو فورس کی مشقیں شامل ہیں۔جب چین نے اس مشترکہ مشق کا اعلان کیا تو اسی دوران پاکستان نے 19 نومبر کو بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی، مجید بریگیڈ، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ راجی اجوئی سنگر کے خلاف بڑے فوجی آپریشن کا اعلان کیا تھا۔واریئر ایٹ مشق میں چین کی بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیاں اور ڈرونز کو بھی شامل کیا گیا ہے، جس کے ذریعے چین نہ صرف اپنی فوجی ترقی اور طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے بلکہ مختلف تنازعات کے ماحول میں اپنے ڈرونز کا جائزہ بھی لے رہا ہے۔یوکرین اور دیگر تنازعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ڈرونز انسداد دہشت گردی اور روایتی فوجی تنازعات کے لیے اہم ہیں۔ چین کے پاس بڑی تعداد ایسے ڈرونز تیار ہیں اور یہ مشق انہیں آزمانے کا بہترین موقع ہے۔ان ڈرونز میں کھڑکی توڑنے والے ڈرون، دیوار پر چڑھنے والے روبوٹس، دھماکہ خیز آرڈننس کو ٹھکانے لگانے والے روبوٹس کے علاوہ بغیر پائلٹ کے جاسوس اور سٹرائیک گاڑیاں شامل ہیں۔
مشترکہ مشقوں کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں پاکستان کی مدد کرنے کے علاوہ چین بالترتیب ایران اور افغانستان میں بلوچ علیحدگی پسند گروپوں اور تحریک طالبان پاکستان کی غیر ملکی پناہ گاہوں کے مسئلے پر قابو پانے میں بھی پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔19 نومبر کو چین کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان یو ژیاؤونگ نے پاکستان کی سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ اور ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ (افغانستان اور مغربی ایشیا) کے سفیر احمد نسیم وڑائچ سے افغانستان کے بارے میں بات چیت کی تھی۔اس ملاقات میں پاکستانی حکام نے افغانستان یو ژیاؤونگ کے ساتھ سرحد پار حملوں کے لیے ٹی ٹی پی کے افغان سرزمین کے استعمال کے تازہ شواہد بھی پیش کیے ہیں۔
ان ملاقاتوں کے بعد 26 نومبر کو ایک چھ رکنی اعلیٰ اختیاراتی چینی وفد نے پاکستانی سکیورٹی خدشات پر بات چیت کرنے کے لیے قندھار کا دورہ کیا، جو طالبان کے روحانی دارالحکومت اور طالبان کے سپریم رہنما ہبت اللہ اخوندزادہ کا آبائی شہر ہے۔ وفد نے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور قندھار کے گورنر مولوی شیریں سے ملاقات کی۔تاہم ہیبت اللہ نے ٹی ٹی پی کی موجودگی پر چینی وفد سے ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے چین کی شمولیت سے پاکستان کی داخلی سلامتی کے منظرنامے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور فوجی امداد کی معطلی کے بعد سے، پاکستان نے دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔تاہم اسے ایک نئے سکیورٹی پارٹنر کی ضرورت ہے اور چین ممکنہ طور پر اس سکیورٹی خلا کو پر کر سکتا ہے۔