بشارالاسد اقتدار کا خاتمہ، باغیوں کے لیے ماحول کیسے سازگار ہوتا گیا؟

2141759-701180579.jpg

شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کی منصوبہ بندی سے واقفیت رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ 13 برس کی خانہ جنگی کے بعد شامی حکومت کی مخالف ملیشیا کو اقتدار پر بشارالاسد کی گرفت کمزور پڑنے کا موقع اس وقت ملا جب تقریباً چھ ماہ قبل انہوں نے ترکیے کو اپنے بڑے حملے کے منصوبے سے آگاہ کیا اور اس کی جانب سے ’خاموشی‘ کو ’منظوری‘ سمجھا۔بمشکل دو ہفتے کے دوران تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب پر قبضہ کیا جس پر سب حیران رہ گئے۔رپورٹ کے مطابق اس کے تقریباً ایک ہفتے کے اندر ہی باغیوں کا اتحاد دمشق تک پہنچا اور اتوار کے روز اسد خاندان کے پانچ عشروں پر محیط دور اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔

تیزی سے ہونے والی اس پیش قدمی میں قسمت نے بھی ان کا ساتھ یوں دیا کہ بشارالاسد کی فوج تھک چکی تھی اور اس کے حوصلے پست تھے۔ اس کے اہم اتحادی ایران اور لبنان کی حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کی وجہ سے کمزور ہو چکے تھے جبکہ اس کے فوجی حامی روس کی بھی اس میں دلچسپی کم ہو گئی تھی۔
شام کے ایک سورس جو کہ شامی اپوزیشن کا رکن اور خطے کا سفارت کار ہے، نے بتایا کہ باغیوں کے پاس ترکیے کو مطلع کیے بغیر آگے بڑھنے کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا جو کہ جنگ کے ابتدائی ایام سے ہی شام کی حزب مخالف کا اہم حامی رہا ہے۔

ترکی اہم کردار کے طور پر سامنے آیا

شمال مغربی شام میں ترکیے کی زمینی فوج موجود ہے اور وہ باغیوں میں سے کچھ کی مدد بھی کرتا ہے جو منصوبے میں شامل ہونا چاہتے تھے بشمول سیرین نیشنل آرمی کے، حالانکہ وہ اہم دھڑے ھیئۃ التحریر الشام کو ایک دہشت گرد گروپ بھی سمجھتا ہے۔سفارت کار کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بندی ھیئۃ التحریر الشام اور اس کے رہنما احمد الشارا، جن کو ابو محمد الجولانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے کی۔سابقہ القاعدہ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ابو محمد الجولانی کو واشنگٹن، یورپ اور ترکیے کی جانب سے دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے، تاہم پچھلے کچھ برسوں کے دوران ھیئۃ التحریر الشام، جس کو پہلے نصرہ فرنٹ کے طور پر بھی جانا جاتا تھا، نے ادلب میں ریاست چلاتے ہوئے خود کو متعدل کرنے کی کوشش کی۔

ترکش صدر طیب اردوغان کی حکومت نے 2020 میں روس کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ شمال مغربی شام میں کشیدگی کم کی جائے اور اس کی جانب سے باغیانہ طرز کے حملوں کی مخالفت بھی سامنے آئی، کیونکہ اس کے خیال میں اس صورت میں پناہ گزین اس کی سرحدوں کی طرف آئیں گے۔تاہم سال کے آغاز میں باغیوں کو بشارالاسد کے بارے میں انقرہ کے سخت موقف کا احساس ہو گیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ باغیوں نے طیب اردوغان کی جانب سے بار بار سیاسی حل کی کوششوں کو رد کیا تو اس کے نتیجے میں ملک، شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گیا جن کو بیرونی حمایت بھی حاصل تھی۔

شام کے حزب اختلاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انقرہ کی جانب سے بشارالاسد کو انگیج کیے جانے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد باغیوں نے ترکیے کو اپنی مںصوبہ کی تفصیلات دکھائیں۔اس پیغام میں لکھا گیا تھا کہ ’برسوں سے کوئی اور مںصوبہ کارگر ثابت نہیں ہوا، اس لیے ہم اپنی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس مداخلت مت کیجیے گا۔روئٹرز کا کہنا ہے کہ وہ اس بات چیت کے الفاظ کی تصدیق نہیں کر سکا۔بیرون ملک شامی حزب اختلاف کے بورڈ کے سربراہ ہادی البہرا نے پچھلے ہفتے روئٹرز کو بتایا تھا کہ ھیئۃ التحریر الشام اور سیرین نیشنل آرمی نے آپریشن سے قبل ’محدود‘ منصوبہ بندی کی تھی اور ایک دوسرے سے تصادم‘ نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی کی فوج نے دیکھ لیا تھا کہ عسکری گروپ کون سی بات چیت اور کیا کچھ کر رہے ہیں۔

اتوار کو ترکی کے وزیر خارجہ ہاقان فیدان نے دوحہ میں کہا تھا کہ ’حالیہ مہینوں میں طیب اردوغان کی جانب سے بشارالاسد کے ساتھ رابطوں کی کوششیں ناکام ہوئیں اور ترکی کو معلوم تھا کہ کچھ نیا ہونے والا ہے۔تاہم ترکی کے ڈپٹی وزیر خارجہ نوح یلماز نے اتوار کو ہی ایک کانفرنس کے کے دوران بتایا کہ ’انقرہ اس حملے کے پیچھے نہیں اور نہ اس نے اس سے اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ترکی کی خارجہ اور دفاعی وزارتوں نے اس حوالے سے روئٹرز کی جانب سے ھیئۃ التحریر الشام کے حلب میں آپریشن کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کا براہ راست جواب نہیں دیا۔تاہم اس حوالے سے ترکی کے ایک سرکاری اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ھیئۃ التحریر الشام ہم سے ہدایت نہیں لیتی، جبکہ وہ اپنے آپریشنز کے حوالے سے بھی ہم کو آگاہ نہیں کرتی۔‘

باغیوں کی پیش قدمی اور ’کمزور‘ بشارالاسد

باغیوں کی جانب سے حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب بشارالاسد اپنی کمزور ترین حالت میں تھے۔ دوسرے مقامات پر جنگوں کی وجہ سے اس کے قریبی اتحادی روس، ایران، لبنان کی حزب اللہ فیصلہ کن کردار ادا سکنے والی طاقت فراہم کرنے میں ناکام ہو گئے تھے، جس کی بدولت وہ برسوں تک مستحکم رہے تھے۔دوسری جانب شام کی کمزور فوج مزاحمت کرنے کے قابل بھی نہیں رہی تھی۔ایک حکومتی سورس نے بتایا کہ بدعنوانی اور لوٹ مار کی وجہ سے ٹینکوں اور جہازوں کے لیے ایندھن تک موجود نہیں تھا۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شامی ریاست اندر سے کس قدر کھوکھلی ہو چکی تھی۔ایک سورس نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہچھلے دو برس کے دوران فوج کے حوصلے بری طرح پست ہوئے۔

غزہ کی صورت حال

حزب اللہ کی فوجی صورت حال سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کے حمایت یافتہ اس گروپ نے شروع میں اسد کی حکومت کی حمایت کی تھی تاہم غزہ جنگ چھڑنے کے بعد اسرائیل سے نمٹنے کے لیے اس نے اپنے اہم جنگجو واپس بلا لیے تھے۔اسرائیل نے حزب اللہ کو سخت جواب دیا خصوصی طور پر ستمبر میں جو آپریشن شروع کیا گیا جس میں اس کے سربراہ حسن نصراللہ اور دوسرے رہنما شہید ہوئے۔ شام میں باغیوں نے اسی روز اپنے مںصوبے پر عمل شروع کیا جس روز لبنان میں جنگ بندی ہوئی۔حزب اللہ سے واقفیت رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ خود کو کسی بڑی جنگ میں الجھانے کے بجائے اپنے نقصانات کا ازالہ کرنا چاہتی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے