کیا بشار الاسد کا تختہ الٹنے میں اردگان شامل ہیں

56b56dc0-b4ac-11ef-8cd5-a537f1bb7c47.jpg

ترکی اس وقت شام کی صورتحال میں سب سے زیادہ دلچپسی لیتا ہوا نظر آ رہا ہے اور اس کا ثبوت صدر رجب طیب اردوغان سمیت سینیئر حکام کے حالیہ بیانات ہیں۔جمعے کو ترکی کے صدر اردوغان نے کہا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ باغی فورسز شامی دارالحکومت دمشق تک پیش قدمی جاری رکھیں گی۔ تاہم انھوں نے ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ باغیوں کے بیچ ‘دہشتگرد تنظیمیں’ بھی موجودہ صورتحال کا فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔جمعے کو ہی ترکی کے وزیرِ خارجہ ھاکان فیدان نے کہا تھا کہ ‘شام کی صورتحال کو کسی بھی بیرونی دخل اندازی کی نگاہ’ سے دیکھنا ایک غلطی ہوگی۔ انھوں نے شام حکومت سے درخواست کی کہ وہ ‘اپنے لوگوں اور اصلی اپوزیشن کے ساتھ مفاحمتی عمل شروع کرے۔

خیال رہے شام میں برسرِ پیکار باغی گروہوں میں ایسے گروہ بھی شامل ہیں جن کی حمایت ترکی کر رہا ہے۔ ماضی میں صدر اردوغان شامی صدر بشار الاسد کے لیے ‘مجرم اور دہشتگرد’ جیسے الفاظ بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔تاہم اپنی حالیہ تقریر میں وہ شام میں جاری صورتحال پر محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔ انھوں نے اپنی اس تقریر میں نہ صرف ‘اتحاد قائم رکھنے، شام کی خودمختار اور استحکام’ کے حوالے سے بات کی بلکہ صدر بشار الاسد کو مشورہ بھِی دیا کہ وہ ‘صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے حقیقت پر مبنی سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔

استنبول میں واقع ایک تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر باقر عطاغان کا کہنا ہے کہ ‘اردوغان نے متعدد مرتبہ اسد سے کہا ہے کہ آئیں ساتھ مل کر ترکی اور شام کو درپیش مسائل کا مل کر سامنا کرتے ہیں لیکن شامی صدر نے ہمیں کنارہ کشی اختیار کی۔’صدر اردوغان کے حالیہ بیانات کا تجزیہ کرتے ہوئے عطاغان نے کہا کہ ایسا لگتا ہے جیسے باغیوں کی پیش قدمی کے دوران ترکی کے صدر شامی صدر کو کہہ رہے ہوں کہ ‘اگر آپ ہمارے ساتھ آ کر نہیں بیٹھتے تو ہم آپ کے ساتھ آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے وہ اسد کو بتا رہے ہوں کہ شامی اپوزیشن کی طرح وہ بھی اس معاملے میں فاتح بن کر اُبھرے ہیں۔امریکی تھنک ٹینک نیولائنز انسٹٹیوٹ فور سٹریٹجی اینڈ پالیسی سے منسلک محقق کیرولین روز کہتی ہیں کہ صدر اردوغان کے حالیہ بیانات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ترکی شام کی ‘حکومت کو کمزور’ کرنا چاہتا ہے۔

کیا ترکی صدر بشار الاسد مخالف گروہوں کی حمایت کر رہا ہے؟

کیرولین روز کہتی ہیں کہ ‘اشارے یہی مل رہے ہیں کہ ترکی بھی اس معاملے میں سیرین نیشنل آرمی نامی گروہ کی حمایت کرکے اس تنازع میں بلاواسطہ کردار نبھا رہا ہے۔تاہم تجزیہ کار عطاغان اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ترکی پر متعدد ممالک یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ اس سارے عمل میں باغیوں کی حمایت کر رہا ہے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ شام میں باغی گروہ سمجھتے ہیں کہ صدر اردوغان نے بشار الاسد کو ساتھ بیٹھنے کی پیشکش کر کے انھیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ ترکی کسی بھی مسلح گروہ کے اقتدار میں آنے کے بجائے صدر بشار الاسد کے اقتدار میں رہنے کو ترجیح دے گا کیونکہ ‘اسد تمام چیزوں کو کنٹرول میں رکھنا پسند کرتے ہیں اور ریاست اور اس کے اداروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

اس سے قبل ماضی میں ترکی ہیئت تحریر شام کے خلاف بھی شمالی مغربی شام میں لڑائیاں لڑتا رہا ہے۔شامی باغیوں میں ترکی کی حمایت کرنے والا اتحاد سیرین نیشنل آرمی بھی شامل ہیں جس میں جیش الاسلام، سلطان مراد، حمزہ اور سلیمان شاہ گروپس بھی شامل ہیں۔بشار الاسد مخالف باغیوں کے ایک دھڑے کے سابق سربراہ عبدالباسط سدعا نے بتایا کہ شام میں اپوزیشن گروہوں کے ترکی سے تعلقات ہیں اور یہ اب کوئی خفیہ بات نہیں ہے۔

‘ترکی باغیوں کی عسکری سطح پر حمایت نہیں کرتا’

ماہرِ عسکری امور احمد حمادہ نے بتایا کہ ‘ترکی باغیوں کی عسکری سطح پر حمایت نہیں کرتا ہے۔حمادہ پہلے شامی فوج کا حصہ تھے اور بعد میں اس سے الگ ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘باغیوں کے زیرِ استعمال ہتھیار شامی فوج کے ہیں اور اس وقت بھی شامی انجینیئرز ادلب کی یونیورسٹیز میں ڈرون تیار کر رہے ہیں۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ‘ترکی نے اس تنازع میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کیا بلکہ تمام عسکری کام اپوزیشن (باغیوں) نے خود انجام دیے ہیں۔

تاہم شامی سیاسی تجزیہ کار غزان یوسف شام میں جاری عسکری مہمات کا ذمہ دار ترکی کو ہی ٹھہراتے ہیں۔ ترکی نے ‘حلب اور ادلب کو گھیرا ہوا ہے اور وہ ہی مسلح گروہوں کو تربیت دینے اور ان کے شہروں پر قبضوں کا ذمہ دار ہے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ بشار الاسد مخالف گروہوں کو ‘ہتھیار اور احکامات ترکی سے ہی موصول ہوتے ہیں۔دوسری جانب عبدالباسط سدعا کہتے ہیں کہ شام میں باغی قوتوں کے آگے بڑھنے سے ترکی کو بھی فائدہ ہوگا: خطے میں ان کی اہمیت بڑھے گی اور انھیں ایران سے لاحق خطرات بھی کم ہوجائیں گے۔ترکی کو لاحق خدشات کی اصل وجہ ایران ہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے