شام کا سقوط اور خطے کو درپیش چیلنج

2436212.jpg

شام کا تنازعہ محض ایک مقامی مسئلہ نہیں، بلکہ مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی، سیاسی اور معاشی توازن کو بدلنے والی ایک بڑی جنگ ہے۔ یہ جنگ صرف شامی عوام کے مستقبل کا سوال نہیں، بلکہ پورے خطے کی سلامتی، ایران کی اسٹریٹجک پوزیشن اور عالمی طاقتوں کی بالادستی کے عزائم کا میدان ہے۔ اگر شام کا سقوط ہوتا ہے تو اس کے اثرات صرف شام کی سرحدوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورا خطہ ایک طوفانی بحران کا شکار ہو جائے گا۔

شام کے زوال کے ممکنہ نتائج میں سب سے اہم حزب اللہ لبنان کے گرد محاصرہ ہے۔ حزب اللہ، جو خطے میں مقاومت کی سب سے مضبوط علامت ہے، شام میں اپنی موجودگی کے ذریعے اسٹریٹجک فوائد حاصل کرتی ہے۔ شام حزب اللہ کے لیے ایک اہم سپلائی لائن فراہم کرتا ہے، جو لبنان میں اس کی قوّت اور اسرائیل کے خلاف اس کی جدوجہد کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر شام سقوط کرتا ہے، تو حزب اللہ کی یہ سپلائی لائن منقطع ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کے خلاف مقاومت کیلئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

اس کے علاوہ، عراق کو پہلے سے ہی کافی مسائل کا سامنا ہے اور داخلی انتشار مزید بڑھ جائے گا۔ شام کی موجودہ صورتحال کا عراق پر گہرا اثر ہے، کیونکہ دونوں ممالک کا جغرافیائی اور مذہبی تعلق ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ شام کا زوال عراق میں فرقہ وارانہ جنگ کو مزید ہوا دے سکتا ہے اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ طاقت حاصل کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں خطے میں ایک نئی جنگ چھڑ سکتی ہے، جو ایران کے لیے مزید مسائل پیدا کرے گی۔

شام کے سقوط کے ساتھ، اقلیم کُردستان کے لئے خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں۔ کُرد عوام کی آزادی کی تحریک شام، عراق، ایران اور ترکی کے کُرد اکثریتی علاقوں کو متاثر کرتی ہے۔ شام کا زوال کُردستان میں علیحدگی پسند عناصر کو تقویت دے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں عراق اور ایران کے کُرد علاقوں میں بھی انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر، ایران کا صوبہ کُردستان اس صورتحال کا براہِ راست شکار ہو سکتا ہے۔

پان تُرک قوم پرستوں کے عزائم بھی شام کے سقوط سے متاثر ہوں گے۔ ترکمان علاقوں میں ترک قوم پرستی کو بڑھاوا مل سکتا ہے اور تحریر الشام جیسے گروہوں کی کامیابی ترک قوم پرستوں کو مزید جارحانہ بنا سکتی ہے۔ یہ صورتحال ایران کے شمال مغربی علاقوں میں علیحدگی پسند عناصر کو ہوا دے سکتی ہے اور ترکی کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کو بڑھا سکتی ہے۔

دوسری طرف، جیش العدل جیسے گروہوں کی سرگرمیاں ایران کے جنوب مشرقی علاقوں کو غیر مستحکم کر سکتی ہیں۔ شام میں جاری جنگ کا براہِ راست اثر ان گروہوں کی کاروائیوں پر پڑ سکتا ہے، جو ایرانی سرحدوں کے قریب مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں۔ طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ان کی سرگرمیوں کا پھیلاؤ بھی ایران کے لیے مشکلات پیدا کرے گا، خاص طور پر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں۔

شام کے سقوط کے ساتھ ساتھ آذربائیجان میں بھی عسکری تحرکات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ آذربائیجان، جو پہلے ہی ایران کے ساتھ تناؤ کا شکار ہے، شام کی صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کر سکتا ہے۔ یہ صورتحال ایران کی شمالی سرحدوں پر مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے اور خطے میں ایک نیا محاذ کھول سکتی ہے۔

تحریر الشام جیسے دہشت گرد گروہوں کی موجودگی اور ان کی جارحیت نہ صرف شام بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ ہے۔ یہ گروہ شام کی سرزمین کو دہشت گردی کا گڑھ بنا کر مشرق وسطیٰ میں انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ان کی کامیابی خطے میں مزید انتہا پسندی کو جنم دے سکتی ہے، جس سے ایران کے لیے مزید چیلنجز پیدا ہوں گے۔

شام کا زوال صرف ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب، ثقافت اور مقاومتی تحریک کے لیے خطرہ ہے۔ ایران، جو خطے میں استحکام اور مقاومت کا علمبردار ہے، اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے۔ اس لیے ایران کے لیے ضروری ہے کہ وہ شام کی حمایت میں اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط کرے اور خطے میں ان سازشوں کو بے نقاب کرے جو مشرق وسطیٰ کے امن کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔

شام کی جنگ محض ایک مقامی مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی سازش کا حصہ ہے، جس کا مقصد مشرق وسطیٰ کے وسائل اور عوام کو غلام بنانا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ایران، روس، اور دیگر مقاومتی قوّتیں مشترکہ حکمت عملی کے تحت ان سازشوں کا مقابلہ کریں اور خطے کے عوام کو ان کے حقیقی دشمنوں سے آگاہ کریں۔ شام کا دفاع صرف ایک ملک کا دفاع نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کے وقار، وحدت اور آزادی کا دفاع ہے۔

شام کے سقوط سے پیدا ہونے والے مسائل میں سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس سے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ شام، جو خطے میں مقاومتی بلاک کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اگر کمزور پڑتا ہے تو اس سے اسرائیل اور اس کے مغربی حامیوں کو اپنی توسیعی پالیسیوں کے لیے کھلی چھوٹ مل جائے گی۔ یہ صورتحال نہ صرف فلسطین بلکہ لبنان اور دیگر پڑوسی ممالک کے لیے بھی سنگین خطرات کا باعث بنے گی۔

علاوہ ازیں، مشرق وسطیٰ کے وسائل پر قابض ہونے کی کوششوں میں اضافہ ہوگا۔ شام میں موجود تیل، گیس اور دیگر قدرتی ذخائر مغربی طاقتوں کے لیے ہمیشہ ایک پرکشش ہدف رہے ہیں۔ شام کا سقوط ان ذخائر کو عالمی سرمایہ داری کے ہاتھوں فروخت کرنے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے، جس سے خطے کے عوام کے وسائل پر ان کا حق ختم ہو جائے گا۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ شام کی شکست مقاومتی محاذ کے اندرونی اتحاد کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ شام، ایران، حزب اللہ اور فلسطینی تنظیموں کے مابین جو اسٹریٹجک تعاون موجود ہے، اس کا خاتمہ مقاومت کو مزید کمزور کرے گا اور مغربی اتحاد کو اپنے مقاصد میں کامیابی کا موقع دے گا۔

یہ تمام حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ مقاومتی قوّتیں شام کے مسئلے کو محض ایک مقامی تنازعے کے طور پر نہ دیکھیں بلکہ اسے ایک عالمی جنگ کے تسلسل کے طور پر سمجھیں۔ شام کا دفاع نہ صرف اس کے عوام بلکہ پورے خطے کے مستقبل کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ اگر اس مسئلے کو نظرانداز کیا گیا تو مشرق وسطیٰ کا جغرافیائی، سیاسی اور ثقافتی توازن ہمیشہ کے لیے بدل سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے