افغانستان: تاپی گیس منصوبے پر عملی کام کا آغاز

WhatsApp-Image-2024-12-06-at-2.33.19-PM.jpeg

ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا (تاپی) گیس منصوبے پر افغانستان اور ترکمانستان کی سرحد پر عملی کام کا آغاز ہو گیا ہے جس کے تحت ابتدائی مرحلے میں ترکمانستان اور افغانستان کی سرحد پر اسلیم چشمہ کے مقام پر مشترکہ بندرگاہ کی تعمیر شامل ہے۔افغانستان کے صوبے ہرات کے گورنر ہاؤس سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ تاپی منصوبے پر عملی کام کا آغاز ہو گیا ہے اور اس کام کو دیکھنے کے لیے ہرات کے عبوری گورنر شیخ الاسلام جار نے دورہ کیا۔بیان کے مطابق گورنر نے اس منصوبے کو افغانستان اور ترکمانستان کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ منصوبے کی تکمیل کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو ہر قسم کی ضروری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

تاپی منصوبہ کیا ہے؟

تاپی منصوبے کو پاکستان سمیت انڈیا میں گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے، جبکہ افغانستان سے گزرنے کی وجہ سے کابل کو بھی اس کا معاشی فائدہ حاصل ہوگا۔ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا کے اس مشترکہ توانائی کے منصوبے کو ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی طرف سے فنڈ کیا جا رہا ہے۔نمائندہ بصیر میڈیاکو دستیاب اے ڈی بی کی دستاویزات کے مطابق، اس منصوبے کے تحت اگلے 30 سالوں کے لیے 33 ارب کیوبک میٹر قدرتی گیس ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان اور انڈیا کو سپلائی کی جائے گی۔تقریباً آٹھ ارب ڈالر کے اس منصوبے کے تحت 1800 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی جائے گی، جس میں منصوبے میں شریک تمام ممالک کی سرکاری گیس کمپنیاں بھی مدد فراہم کریں گی۔امریکہ کی جیم سٹون فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے تاپی منصوبے کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق، اس منصوبے کے آغاز کی خبریں 1990 میں سامنے آئی تھیں، لیکن اس کے لیے کنسورشیم 2014 میں بنایا گیا تھا۔منصوبے کے تحت ترکمانستان کی گالکینیش گیس فیلڈ سے قدرتی گیس براستہ افغانستان و پاکستان، انڈیا پہنچائی جائے گی۔

منصوبے کی دستاویزات اور مرحلے

اس منصوبے کے دستاویزی مواد کی تیاری پر کام اے ڈی بی نے 2002 میں شروع کیا تھا، اور اس کا پہلا مرحلہ 2010 میں پائپ لائن کے فریم ورک معاہدے کے بعد مکمل ہو گیا تھا۔اسی طرح اے ڈی بی کی دستاویزات کے مطابق، 2012 میں دوسرے مرحلے میں خریداری کا معاہدہ کیا گیا، جبکہ تیسرے مرحلے میں منصوبے میں شامل ممالک کے مابین وزارتوں کی سطح پر نشستیں ہوئیں، اور چوتھے مرحلے میں اب اس پر عملی کام کا آغاز ہوا ہے۔اس منصوبے کے ڈیزائن کے حوالے سے پاکستان میں 2017 میں ایک افتتاحی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں افغانستان اور ترکمانستان کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔

پاکستان کے لیے اہمیت

اس منصوبے کی پاکستان کے لیے اہمیت کے حوالے سے اس وقت کے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے بتایا تھا کہ 56 انچ پائپ لائن کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر تین ارب کیوبک فٹ گیس پاکستان اور پاکستان-انڈیا سرحد تک پہنچے گی۔شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا: ’ابھی ہم پاکستان میں گیس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے مائع قدرتی گیس برآمد کرتے ہیں، لیکن اس منصوبے کے بعد پاکستان کے پاس گیس ضرورت سے زیادہ ہوگی یعنی سرپلس ہوگی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ منصوبے کے تحت پاکستان کو مجموعی گیس کا روزانہ ایک تہائی حصہ ملے گا، جو تقریباً 1.25 ارب کیوبک فٹ ہوگا، جبکہ افغانستان کو 0.5 ارب کیوبک فٹ گیس ملے گی۔

معاشی ماہرین کا نقطہ نظر

سجاد احمد جان، پشاور یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے پروفیسر اور پولیٹیکل اکانومی اور ڈیولپمنٹ اکنامکس کے تجزیہ کار، تاپی منصوبے کو شریک ممالک کے لیے ایک ’سرپرائز‘ سمجھتے ہیں۔انہوں نے بتایا: ’اگر ہم دنیا کے مختلف خطوں پر نظر دوڑائیں تو پوری دنیا گلوبلائزیشن، تجارت، اور سافٹ بارڈرز کے اصول کی طرف جا رہی ہے، جیسے جنوبی ایشیائی ممالک کا اتحاد آسیان ہے اور وہ ایک دوسرے سے تجارت کر رہے ہیں۔‘پروفیسر سجاد خان نے مزید کہا: ’امریکہ اور چین کے درمیان سیاسی اختلاف ضرور ہے، لیکن ان کے مابین اربوں ڈالرز کی تجارت ہوتی ہے، اور اسی تناظر میں پاکستان کے پڑوسی ممالک کے ساتھ تاپی جیسے منصوبے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اس قسم کے منصوبے شروع کرنا تمام ممالک کے مفاد میں ہوتا ہے کیونکہ اس سے درآمدات و برآمدات میں آسانی ہو جاتی ہے۔بقول سجاد جان: ’تاپی منصوبے میں تمام پڑوسی ممالک شامل ہونے چاہییں، اور بظاہر اس سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا، کیونکہ پاکستان منصوبے کے درمیان میں واقع ہے اور براستہ پاکستان ہی انڈیا تک پائپ لائن بچھائی جائے گی۔‘

روس اور انڈیا کا موقف

جیم سٹون فاؤنڈیشن کے مقالے کے مطابق، روس نے 2023 میں اس منصوبے میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا، تاہم انڈیا کی جانب سے اس منصوبے پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا گیا، جس میں پائپ لائن کا پاکستان سے گزرنا بھی شامل تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے