پاکستان میں "مسنگ پرسنز” کا مسلہ اور سال 2024
حکومت پاکستان کی جانب سے جبری طور پر گمشدہ افراد کی چھان بین کے لیے قائم ادارے لاپتہ افراد کمیشن کی 30 نومبر 2024 کو جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سات سالوں میں نئے کیسز کی سب سے کم تعداد 2024 میں سامنے آئی ہے۔تاہم ملک میں سیاسی عدم استحکام اور شدت پسندی میں اضافے کے باوجود واضح نہیں کہ اس تعداد میں کمی کی وجہ کیا ہے۔ اس سے قبل 2020 میں بظاہر کرونا کی وجہ سے کم یعنی 415 کیسز سامنے آئے تھے۔یہ کمیشن ہر ماہ اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرواتا ہے، جس میں لاپتہ افراد سے متعلق نئے اور پرانے کیسز کی تفصیل عدالت کو بتائی جاتی ہے۔
دستیاب کمیشن کے ڈیٹا کے مطابق نومبر 2024 تک لاپتہ افراد کے کل 10438 کیسز سامنے آئے تھے، جبکہ نمٹائے گئے کیسز کی کل تعداد 8172 ہے۔ کیسز نمٹانے کے بعد اس وقت لاپتہ افراد کے غیر حل شدہ کیسز 2266 ہیں۔دستاویز کے مطابق سال 2018 میں لاپتہ افراد کمیشن کو 1098 جبری گمشدگیوں کی درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ سال 2024 میں موصول ہونے والی درخواستیں 350 ہیں۔ گذشتہ سات برسوں میں لاپتہ افراد کی درخواستیں سب سے زیادہ سال 2021 میں سامنے آئیں، جن کی تعداد 1460 ہے۔کمیشن کو سال 2019 میں 800 درخواستیں موصول ہوئیں، سال 2020 میں 415، سال 2021 میں 1460، سال 2022 میں 860، 2023 میں 885 جبکہ رواں برس 30 نومبر تک کے ڈیٹا کے مطابق 350 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
نومبر کے مہینے میں کتنے افراد لاپتہ ہوئے؟
کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے رواں برس نومبر کے ڈیٹا کے مطابق 33 افراد لاپتہ ہوئے جن میں سے سات گھروں کو واپس پہنچ گئے، ایک جیل میں ہے، ایک حراستی مرکز میں اور نو کو ٹریس کر لیا گیا ہے۔نومبر 2024 میں بلوچستان سے 12 اور خیبر پختونخوا سے 12 افراد لاپتہ ہوئے، جن میں سے دو خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے ایک لاپتہ فرد گھر پہنچ چکا ہے۔ جبکہ ان میں سے 19 کیسز خارج کر دیے گیے کیونکہ کمیشن کے مطابق وہ لاپتہ افراد کی کیٹیگری میں نہیں آتے۔خیبر پختونخوا سے ’سب سے زیادہ افراد جبری گمشدہ‘ ہوئےرپورٹ میں تمام صوبوں سے سامنے آنے والے کیسز کے حوالے سے بھی بتایا گیا کہ کس صوبے سے کتنے افراد لاپتہ ہیں۔نومبر 2024 تک کے ڈیٹا کے مطابق سب سے زیادہ لاپتہ افراد کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے، جن کی تعداد 3585 تھی۔ دوسرے نمبر پر بلوچستان 2845 کیسز کے ساتھ، تیسرے نمبر پر سندھ 1831 اور چوتھے نمبر پر پنجاب ہے، جہاں لاپتہ افراد کے 1703 کیسز رجسٹر ہوئے۔اسلام آباد 383، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے 71 اور گلگت بلتستان سے 10 افراد لاپتہ ہوئے۔
بلوچستان
دستاویز کے مطابق بلوچستان کے 2845 میں سے 2050 گھروں کو پہنچ چکے ہیں، دو حراستی مرکز میں ہیں، 26 جیلوں میں جبکہ 47 مردہ حالت میں ملے ہیں۔ اس علاوہ 293 جبری گمشدگی کی کیٹیگری میں نہیں آتے۔ اس وقت 427 افراد کے کیسز زیر التوا ہیں۔
خیبر پختونخواہ
دستاویز کے مطابق خیبر پختونخوا کے 3585 لاپتہ افراد میں سے 663 گھروں کو واپس پہنچ چکے ہیں۔ دیگر 844 حراستی مراکز میں، 138 جیل میں اور 82 مردہ حالت میں ملے جبکہ 528 کیسز جبری کیٹیگری کے نہ ہونے کی وجہ سے خارج کیے گئے اور اس وقت 1330 افراد کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔
پنجاب
پنجاب میں 1703 لاپتہ افراد میں سے 864 گھروں کو پہنچ چکے ہیں، 94 حراستی مراکز اور 194 جیلوں میں ہیں جبکہ 80 مردہ حالت میں پائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ 206 کیسز متعلقہ نہ ہونے پر خارج کر دیے گئے۔ اس وقت پنجاب میں 265 لاپتہ افراد کے کیسز کمیشن کے پاس زیر التوا ہیں۔
سندھ
سندھ کے 1871 جبری گمشدگی کے کیسز میں سے 802 افراد گھروں کو پہنچ چکے ہیں، 41 حراستی مراکز جبکہ 268 جیلوں میں، 65 مردہ حالت میں ملے، 486 کیسز خارج کیے گئے۔ اس وقت 169 لاپتہ افراد کی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔
اسلام آباد:
اسلام آباد کے 393 لاپتہ افراد میں سے صرف 58 کیسز زیر التوا ہیں۔ 197 گھروں کو پہنچ چکے ہیں، 21 حراستی مرکز، 44 جیلوں میں، دس مردہ حالت میں ملے جبکہ 63 کیسز غیر متعلقہ ہونے پر خارج کر دیے گئے۔
لاپتہ افراد کمیشن کب تشکیل دیا گیا؟
لاپتہ افراد یا جبری گمشدگی کا معاملہ نیا نہیں بلکہ دہائیوں پرانا ہے۔ جبری گمشدگیوں کے معاملے کی چھان بین کے لیے پاکستان میں پہلا کمیشن 2010 میں جسٹس ریٹائرڈ کمال منصور عالم کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا جبکہ 2011 میں جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو چیئرمین مسنگ پرسن کمیشن تعینات کیا گیا، جو تاحال اس عہدے پر فائز ہیں۔سپریم کورٹ میں سال ہا سال سے لاپتہ افراد کے کیسز زیر التوا ہیں جن میں ہر سال کیسز بڑھ رہے ہیں۔ 11 سال قبل بھی سپریم کورٹ کے حکم پر حراستی مرکز سے چھ لاپتہ افراد کو عدالت پیش کیا گیا تھا، جنہیں بعد ازاں رہا کر دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں لاپتہ افراد کے کیسز
آئینی بینچ کی تشکیل کے بعد اب لاپتہ افراد کے کیسز آئینی بینچ کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔سپریم کورٹ میں ان کیسز کی سماعت آئینی بینچ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔منگل (تین دسمبر) کو لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت میں جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ’بلوچستان میں لاپتہ افراد کے ایک کلاسک مقدمے میں 25 وکیل پیش ہوئے، بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر لاپتہ افراد گھر آ گئے، عدالت نے واپس آنے والے افراد کو پیش ہونے کا حکم دیا، بازیابی کے بعد وہ افراد کسی عدالتی فورم پر بیان کے لیے پیش نہیں ہوئے۔
’بازیاب افراد کے بیان ریکارڈ کرنے کا ایک مقصد تھا، مقصد تھا کہ اگر آرمی ملوث ہے تو کورٹ مارشل کے لیے جی ایچ کیو کو لکھا جائے، اگر دیگر ادارے ملوث ہیں تو ان کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جائے، لاپتہ افراد کے کسی مقدمہ کو مثال بنانا ہے تو واپس آنے والے اپنے اندر جرات پیدا کریں۔‘جسٹس نعیم افغان نے مزید کہا کہ ’لاپتہ افراد میں سے واپس آنے والوں میں کوئی تو کھڑا ہو، لاپتہ افراد کے کچھ کیسز افراد ریاست کو برباد اور بدنام بھی کرتے ہیں، کچھ کیسز میں افراد آزادی کے لیے شرمسار بن گئے، لاپتہ افراد کے نام پر آزادی کی جنگ بھی چل رہی ہے، سسٹم میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔‘جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ’ہم لاپتہ افراد کے کیس میں حل کی طرف جانا چاہتے ہیں۔اسی طرح جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’لاپتہ افراد کا حل یہ ہے کہ سٹیک ہولڈرز سر جوڑ کے بیٹھیں، غور کریں کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے، پارلیمنٹ کو عدالت نے سپریم تسلیم کیا ہے، پارلیمنٹ خود کو سپریم ثابت کرے۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق کیسز
لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیسز اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ میں زیر سماعت ہیں۔ اس بینچ کی سربراہی محسن اختر کیانی کر رہے ہیں۔ بینچ کے دیگر دو ججوں میں جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس ارباب محمد طاہر شامل ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دوگل کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دیے گئے بیان کے مطابق وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد کے خاندان سے متعلق ایک پالیسی مرتب کی ہوئی ہے، پانچ سال سے زیادہ اگر کوئی لاپتہ ہو اور کسی جرائم میں ملوث نہ ہو تو ان کے لیے پیکج ہے۔بقول اٹارنی جنرل: ’لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی مدد کے لیے فی خاندان 50 لاکھ روپے کے سپورٹ پیکج‘ دینے کی منظوری دی گئی ہے۔
26 ستمبر کو ہونے والی جبری گمشدگیوں سے متعلق کیسز کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے تھے کہ ’ہمیں ایک طریقہ کار وضع کرنا ہو گا کہ لاپتہ افراد کو کیسے بازیاب کروایا جائے۔ میرا ماننا ہے کہ اس ایشو کو حل کرنے کا میکنزم وزارت دفاع بنا سکتی ہے۔ وزارت دفاع اور انٹیلی جنس ایجنسیاں پالیسی بنا کر وفاقی حکومت کو دیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا تھا کہ ’بلوچستان میں جو حالات ہیں وہ ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔۔ موجودہ حالات میں آرمی اور سکیورٹی اداروں کے تین سو سے زائد جوان شہید ہو گئے۔ ان حالات میں آرمی یا سکیورٹی اداروں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، مگر ایک طریقہ اپنانا ہو گا۔‘جبکہ جبری گمشدگیوں کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ’اعداد و شمار کے مطابق بازیابی کمیشن میں 80 فیصد جبری گمشدہ افراد کے کیسز حل ہو چکے ہیں۔ فہرست عدالت میں جمع کروائی گئی ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ افغانستان گئے ہیں۔