کرم: امن و امان برقرار رکھنے کیلئے 400 اہلکار بھرتی کرنے کا فیصلہ

2284873.jpg

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے 400 ایکس سروس مین اہلکار بھرتی کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔نیوز کے مطابق ضلع کرم میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس نفری بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) خیبر پختونخوا نے اس حوالے سے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو مراسلہ لکھا ہے۔آئی جی کی جانب سے لکھے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ کرم کی اہم شاہرہ کو محفوظ اور پرامن بنایا جائے اور ٹل پاڑا چنارروڈ کی سیکیورٹی کے لیے 400 ایکس سروس مین اہلکار بھرتی کیے جائیں۔

مراسلے میں مزید کہا گیا کہ ایکس سروس مین میں 350 سپاہی اور 50 ہیڈ کانسٹیبل کی کئی پوسٹیں مرتب کی گئی ہیں، ایکس سروس مین کی بھرتی کا مقصد ٹل پاڑا چنار کی مین سپلائی لائن کو محفوظ بنانا ہے، بھرتی رواں اور اگلی مالی سال کے لیے کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔آئی جی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایکس سروس مین کی بھرتی کا عمل مکمل ہوتے ہی شاہراہ پر پولیس پوسٹیں قائم کی جائیں۔دوسری جانب دوسری جانب ضلع کرم میں سڑک کی بندش سے ادویات کی قلت پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے اپنا ہیلی کاپٹر فراہم کردیا، آج کرم میں 63 لاکھ روپے مالیت کی جان بچانے والی اور دیگر ادویات پہنچائی گئی ہیں، وزیراعلیٰ کا پیلی کاپٹر ادویات کی دو کھیپ لے کر کرم پہنچا۔

ادھر کمشنرکوہاٹ نے ہنگو میں گرینڈ جرگہ ممبران اور کوہاٹ ڈویژن امن کمیٹی کے اراکین کے ساتھ ملاقات اور مشاورت کی، مشترکہ اجلاس میں ٹل کوہاٹ روڈ پر آئندہ کوئی بھی احتجاج نہ کرنے کا متفقہ فیصلہ کیاگیا، علاوہ ازیں کوہاٹ اور اورکزئی میں کسی قسم کے جلسے یا جلوس نہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیاہے، خلاف ورزی پر پولیس قانون شکنوں کے خلاف کارروائی کرے گی، فریقین کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔کرم کے دونوں فریق اور گرینڈ جرگہ عنقریب کوہاٹ میں جنگ بندی پر معاہدہ کریں گے اور افہام و تفہیم سے مسئلے کا مستقل حل نکالیں گے، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او ہنگو نے آج کے جرگے کے انتظامات کیے تھے۔اس موقع پر ہنگو اور اورکزئی کے ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز بھی کمشنر کوہاٹ کے ہمراہ تھے۔

یاد رہے کہ ضلع کرم کے علاقے اپر دیر میں 21 نومبر کو ہونے والے ابتدائی حملے میں ایک گروپ کی جانب سے مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کی گئی تھی جب کہ مخالف گروپ کی جانب سے جوابی فائرنگ سے مجموعی طور پر 43 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ضلع میں کئی دن تک جاری مسلح تصادم کے نتیجے میں 100 سے زائد اموات کے بعد سیاسی جرگے کی مداخلت سے علاقے میں مکمل جنگ بندی کے بعد معمولات زندگی بحال ہوئے تھے اور علاقے میں اسکول بھی دوبارہ کھل گئے ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے