نفسیاتی حربوں کی دُھند میں جنگ کی اصل کہانی
انسانی تاریخ میں جنگ محض میدانِ جنگ میں لڑی جانے والی کاروائی نہیں رہی، بلکہ نفسیاتی حربے بھی ہمیشہ جنگ کے ایک لازمی عنصر رہے ہیں۔ مغول دور کی مثال سے لے کر جدید دنیا میں پروپیگنڈے کی شکل تک، نفسیاتی جنگ ہمیشہ جنگوں کے نتائج پر اثر انداز رہی ہے۔ مغول فوجیں اپنی فتح کی داستانوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کر کے دشمن کے حوصلے توڑتی تھیں۔ اسی طرح، جدید دور میں 2003 کی عراق جنگ کے دوران، اتحادی افواج نے اپنی پیش قدمی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے عراقی فوج کے اعتماد کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
مثال کے طور پر، مغربی میڈیا نے مسلسل ایسی رپورٹیں نشر کیں جن میں اتحادی افواج کی ناقابل شکست ہونے کا بیانیہ تشکیل دیا گیا۔ سی این این کے رپورٹر والتر راجرز کی وہ مشہور رپورٹ، جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ اتحادی فوجیں عراقی سرزمین پر بغیر کسی مزاحمت کے 13 گھنٹے تک پیش قدمی کرتی رہیں، اس بیانیے کی ایک اہم مثال ہے۔ یہ رپورٹیں عراقی فوج کی نفسیات پر کاری ضرب ثابت ہوئیں۔آج بھی، شام کے میدانِ جنگ میں یہی نفسیاتی حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ شام کے محاذ پر حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ دشمن کے حوصلے پست کیے جا سکیں اور میدان میں جاری مزاحمت کو کمزور کیا جا سکے۔
نفسیاتی جنگ کی ایک اہم تکنیک معلومات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے۔ اس تکنیک کا مقصد مخالفین کو میدانِ جنگ میں کمزور کرنا اور ان کے حامیوں کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ شام کی جنگ کے دوران بھی، عالمی اور علاقائی میڈیا یہی کردار ادا کر رہا ہے۔ جھوٹی خبریں اور شکوک و شبہات پیدا کرنے والے مواد کا استعمال شام کی حکومت اور اس کے حامیوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
جنوبی شام کے معرکوں میں ایک واضح مثال دیکھی گئی، جب یہ دعویٰ کیا گیا کہ شامی افواج کئی اہم علاقوں سے پسپا ہو رہی ہیں۔ ان خبروں نے عالمی سطح پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ شامی حکومت شکست کے قریب ہے۔ تاہم، حقیقت یہ تھی کہ میدانِ جنگ میں شامی افواج اور ان کے اتحادی بدستور کامیابیاں حاصل کر رہے تھے۔
سردار قاسم سلیمانی کے وہ الفاظ اس پورے منظرنامے کی وضاحت کرتے ہیں:”ہم دو مختلف شام دیکھتے ہیں: ایک شام میدانِ جنگ کی حقیقت ہے، اور دوسرا خبروں کا شام۔ وہ میڈیا کی دنیا میں فتح حاصل کرتے ہیں؛ لیکن ہم میدان میں غالب آتے ہیں۔”اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نفسیاتی جنگ میں میڈیا کس طرح ایک اہم ہتھیار بن چکا ہے۔نفسیاتی جنگی اسٹریٹیجی کا ایک اور پہلو عوام کے شعور اور ردعمل کو قابو میں رکھنا ہے۔ اس مقصد کے لیے جھوٹے دعوے، مبالغہ آرائی اور یک طرفہ بیانیے کا سہارا لیا جاتا ہے۔ شام کی موجودہ جنگ میں بھی، دشمن کے ذرائع ابلاغ نے انہی حربوں کو بروئے کار لایا ہے تاکہ عوامی رائے عامہ کو شامی حکومت اور مزاحمتی اتحاد کے خلاف بھڑکایا جا سکے۔
ایک نمایاں مثال یہ ہے کہ شام کے اندرونی حالات کو جمہوریت کی لڑائی کے طور پر پیش کیا گیا، جبکہ اصل حقیقت یہ تھی کہ جنگ میں شامل زیادہ تر گروہ غیر ملکی اُجرتی جنگجو تھے، جو مختلف ممالک سے لائے گئے تھے۔ سردار قاسم سلیمانی نے اسی حقیقت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: "یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ گروہ شام کی حکومت کے مخالف ہیں؛ لیکن یہ مخالفین ازبکستان، چچنیا، تاجکستان اور دیگر ممالک سے کیوں آئے ہیں؟”یہ سوال بشارالاسد کے دشمنوں کے بیانیے کی اصلیت کو بے نقاب کرتا ہے اور اس بات کا اظہار ہے کہ شام کی جنگ، جمہوریت کی لڑائی کے بجائے، ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے۔ اس صورتحال میں مقاومتی محور کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ نہ صرف میدان میں بلکہ نفسیاتی جنگ میں بھی اپنے دشمنوں کو شکست دے رہا ہے۔میدانِ جنگ اور نفسیاتی محاذ پر مقاومت کی یہ کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ نفسیاتی جنگ کے حربے صرف وقتی اثر ڈال سکتے ہیں؛ لیکن حقیقت میدانِ جنگ میں طے ہوتی ہے اور یہ حقیقت مقاومتی قوّتوں کے عزم و استقلال سے عبارت ہے۔