شام کی صورتحال: ’باغیوں کی حلب میں پیش قدمی کی ٹائمنگ اتفاق ہر گز نہیں‘
تادمِ تحریر شامی باغی حلب کے قدیم اور اسٹریٹجک طور پر اہم شہر حلب پر قابض ہوچکے ہیں۔ محض تین دنوں میں باغیوں نے تیز پیش قدمی کرتے ہوئے حکومتی فورسز کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا اور علاقہ در علاقہ قابض ہونے کے بعد وہ حلب میں داخل ہوئے۔یہ نہ صرف تقریباً ایک دہائی میں باغیوں کی سب سے بڑی کامیابی ہے بلکہ 2012ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جب باغیوں نے حلب پر حملہ کیا۔ 2016ء میں روسی اور شامی افواج کی جانب سے بدترین محاصرے کا سامنا کرنے سے قبل باغیوں نے مشرقی حلب پر قبضہ کرلیا تھا لیکن انہیں وہاں سے بےدخل ہونا پڑا۔
روس اور ایران کی شام کے تنازع میں شمولیت کے بعد سے کسی حد تک جو استحکام آیا تھا، موجودہ پیش رفت سے وہ بگڑ گیا ہے۔ ایران اور روس نے ایران کی حمایت یافتہ تنظیم جیسے حزب اللہ اور ال فاطمیون اور الزینبیون ملیشیا سمیت دیگر عراقی عسکری گروہوں کی حمایت کی جبکہ مشکلات کا شکار شامی عرب آرمی کو ملک کا 70 فیصد کنٹرول حاصل کرانے کے لیے بشارالاسد کا ساتھ بھی دیا۔یہ باغی، مختلف نظریات اور ساخت رکھنے والے گروہوں کا اتحاد ہے جنہوں نے شام کے دیگر علاقوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا جس میں انہیں خطے کے دیگر کرداروں جیسے ترکیہ، قطر اور سعودی عرب کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ ترکیہ نے تو کرد سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے حملوں کے خلاف دفاع کے نام پر شمالی شام میں ایک ’بفر زون‘ تک بنا رکھا ہے۔
ان باغیوں کو مغربی قوتوں جن میں امریکا قابلِ ذکر ہے، سے سیاسی اور لاجسٹک امداد (جن میں عسکری امداد بھی شامل ہیں) بھی موصول ہوتی ہے۔ امریکا نے داعش کو دوبارہ سرگرم ہونے سے روکنے کے لیے اپنے 900 سپاہی شام میں تعینات کیے ہوئے ہیں۔حالیہ پیش قدمی میں باغیوں کے چھوٹے اور بڑی تعداد میں غیرملکی جنگجوؤں پر مشتمل گروہوں جن میں ازبک اور چیچن افراد کی بڑی تعداد شامل ہوتی ہے، کی قیادت حیات التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) نے کی۔ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرد ایس ڈی ایف، روس اور بشارالاسد کی شامی فوج کے ساتھ تعاون کررہی ہے۔ البتہ جنگ کے غبار میں تصدیق کرنا مشکل ہے لیکن چونکہ ترکیہ شامی باغیوں کا ساتھ دے رہا ہے ایسے میں کرد ایس ڈی ایف کی جانب سے بشارالاسد کا ساتھ دینا منطق کے عین مطابق ہے۔
دلچسپ طور پر حلب پر باغیوں کے قبضے کا طالبان عسکریت پسند حافظ گل بہادر نے بھی خیرمقدم کیا ہے۔ حافظ گل بہادر کے گروپ طالبان نے ماضی میں متعدد عرب عسکریت پسندوں کو پناہ دی جنہوں نے بعدازاں حیات التحریر شام یا اس جیسے گروہوں میں شمولیت اختیار کی۔حیات التحریر الشام کی تاریخ بھی دلچسپ ہے۔ اس کا لیڈر ابو محمد الگولانی القاعدہ شام کا کمانڈر تھا اور اس نے کئی بمباری کے واقعات کی ہدایات جاری کیں جن میں عام شہریوں اور سرکاری افواج کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مؤقف میں تبدیلی آئی اور اس نے بالواسطہ امریکا کی سپورٹ حاصل کی (یا اس کی امریکی مخالفت میں کمی آئی)۔اگرچہ حیات التحریر اب بھی امریکا کے دہشت گرد گروپس کی فہرست میں شامل ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں امریکا نے تسلیم کیا دہشت گردوں سے ترجیحی بنیادوں پر نمٹنے کی فہرست میں حیات التحریر اولین ہدف نہیں رہا۔
حلب پر حالیہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب ایران، روس یا حزب اللہ سمیت بشارالاسد کے کسی بھی اتحادی کے پاس اتنے وسائل یا افواج نہیں کہ وہ فوری شام کی فورسز کی مدد کو آ سکیں۔ بشارالاسد کی افواج نے ماضی میں ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے طور پر ان باغیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔یہ اتفاق نہیں کہ باغیوں کا حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب اسرائیل-حزب اللہ جنگ بندی کو چند دن ہی گزرے ہیں۔ حالیہ پیش قدمی بلاشبہ پہلے سے منصوبہ بندی کرکے ہوئی ہے۔ اپنی سینئر ترین قیادت اور متعدد شہادتوں کا نقصان اٹھانے والی حزب اللہ بھاری تعداد میں ہتھیاروں کو اسرائیل کے خلاف استعمال کرچکی ہے، ایسے میں وہ اس قابل نہیں کہ بشارالاسد کی مدد کو آسکے۔ شام میں اپنی موجودگی کے باعث حزب اللہ اسرائیلی انٹیلی جنس کے لیے آسان ہدف بن چکی ہے۔ اگر اب ان کے پاس شام میں کارروائی کے لیے وسائل بھی ہوں تب بھی وہ اس سے گریز کرے گی۔
یہی معاملہ روس کے ساتھ بھی ہے جو یوکرین جنگ پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جہاں روس کو اپنے بہترین فوجی اور جرنیل تعینات کرنا پڑے جس کی وجہ سے شام کا محاذ خالی چھوڑنا پڑا۔ اگرچہ شام میں روس کی فضائیہ اپنی معاونت فراہم کررہی ہے لیکن شاید یہ باغیوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے ناکافی ہو یا ایسا کرنے میں تاخیر نہ ہوجائے۔اسٹریٹجک اعتبار سے دیکھا جائے تو شام کے بڑے علاقوں کو کھو دینے کا مطلب یہ ہے کہ روس شام کی بندرگاہ طرطوس سے محروم ہوجائے گا کیونکہ وہ بڑی حد تک اس بندرگاہ پر انحصار کرتا ہے جو اسے بحیرہ روم تک رسائی فراہم کرتی ہے۔ بحیرہ روم کے اڈوں میں روسی بحریہ اپنے جہازوں کی مرمت کرتی ہے، ایندھن بھرتی ہے اور دیگر ضروریات پوری کرتی ہے۔ شام کی بندرگاہ تک رسائی کے باعث انہیں بحیرہ اسود میں قائم اپنے اڈوں تک نہیں آنا پڑتا۔
تو حالیہ پیش رفت نے روس، حزب اللہ اور ایران کے لیے نئے مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ اس پیش رفت کو فائدہ واضح طور پر اسرائیل اور امریکا کو ہوگا۔غزہ کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے والی حزب اللہ کو اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوسرے مرحلے کے لیے سپلائی کے راستے کھلے رکھنا ہوں گے جبکہ باغیوں کے حالیہ پیش قدمی سے ان کے راستے براہ راست خطرے میں ہیں۔دوسری جانب اسرائیل غزہ میں اپنی کارروائیاں تیز اور لبنانی محاذ کو محفوظ بنا کر مضبوط پوزیشن میں آچکا ہے۔ تل ابیب کی ماضی میں بشارالاسد مخالف قوتوں کی حمایت کی ایک تاریخ ہے جبکہ اسرائیلی آرمی کے طبی عملے نے القاعدہ سے منسلک فورسز کو مقبوضہ گولان میں طبی امداد بھی فراہم کی تھی۔ 2018ء میں اسرائیل کے چیف آف اسٹاف نے سالوں تک تردید کرنے کے بعد بلآخر بشارالاسد کی مخالفت کرنے والے باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ایران کے مزاحمتی گروہوں کو پسپا کرنا اس کا ہدف رہا ہے اور باغیوں کی حالیہ کامیابی، اس مقصد کے حصول کی جانب ایک اور قدم ہے۔