نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری؛ سازش یا حقیقت؟

20163344639ef35.jpg

بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم اور بچوں کا قاتل بنیامین نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآف گالانت کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب پر گرفتاری کے حکم نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے پس منظر میں جاری یہ وارنٹ بظاہر انصاف کی فراہمی کی علامت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے؛ لیکن، اس اقدام کے حقیقی محرکات اور مقاصد کہیں زیادہ پیچیدہ اور گہرے ہیں۔

صہیونی غاصب ریاست کی تاریخ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور نسل کشی کی ایک مسلسل داستان ہے۔ فلسطین کے مظلوم عوام کی نسل کشی، غزہ کی تباہی، لبنان پر جارحیت اور مقاومتی تنظیموں کو نشانہ بنانے جیسے جرائم، اسرائیل کی ریاستی پالیسی کا حصہ رہے ہیں۔ تاہم، ان جرائم کی ذمہ داری صرف نیتن یاہو جیسے افراد پر ڈال کر غاصب ریاست کے مجموعی مظالم کو نظر انداز کرنا ایک گہری سازش کا حصہ ہے۔ یہ فیصلہ بظاہر اسرائیل کے جرائم کے خلاف ایک قدم معلوم ہوتا ہے؛ لیکن حقیقت میں یہ اسرائیل کو بری الذمہ قرار دینے اور اسے عالمی سطح پر قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش ہے۔

نیتن یاہو کو جنگی جرائم کا ذمہ دار ٹھہرا کر اسرائیلی غاصب ریاست کو غیر ذمہ دار ثابت کرنے کی اسٹریٹیجی اس وقت سامنے آتی ہے جب اسرائیل کے مظالم بین الاقوامی سطح پر بے نقاب ہو چکے ہیں۔ خواتین، بچوں اور معصوم شہریوں کے قتل عام، گھروں کی تباہی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود، بین الاقوامی طاقتیں صرف نمائشی اقدامات کر رہی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل کے جرائم کا بوجھ چند افراد پر ڈال کر دنیا کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس وارنٹ گرفتاری کے پیچھے ایک اور خطرناک پہلو عالمی صہیونیت اور سامراجی قوّتوں کی شمولیت کا ہے۔ امریکا اور یورپی طاقتیں، جو اسرائیل کے مظالم کی ہمیشہ حمایت کرتی آئی ہیں، اس فیصلے کو اپنی پالیسیوں کی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہیں؛ لیکن یہ وہی طاقتیں ہیں جو غزہ کی تباہی اور فلسطینی عوام کی نسل کشی میں براہ راست یا بالواسطہ شریک ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے مظالم کسی ایک فرد یا گروہ تک محدود نہیں۔ یہ ایک منظم سسٹم ہے جو عالمی صہیونیت کے تعاون سے چلایا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کے خلاف گرفتاری کا حکم اس وقت بھی مشکوک معلوم ہوتا ہے جب اسرائیل خطے میں حزب اللہ، حماس، اور دیگر مقاومتی تنظیموں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ تنظیمیں اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور کو ختم کر چکی ہیں، اور ان کی جدوجہد نے اسرائیل کے جرائم کو عالمی سطح پر بے نقاب کر دیا ہے۔

اس فیصلے کے ذریعے اسرائیل اپنی ریاستی پالیسیوں کو بچانے اور اپنے مظالم کو کم کرنے کے بجائے، انہیں جاری رکھنے کے لیے وقت حاصل کر رہا ہے۔ یہ اقدام صرف ایک نمائشی چال ہے جس کے ذریعے اسرائیلی غاصب ریاست اور اس کے عالمی سرپرست اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آج، عالمی برادری کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی ان چالاکیوں کو پہچانے اور صرف نمائشی اقدامات کے بجائے فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے ٹھوس پالیسی اپنائے۔ فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی، غزہ اور لبنان پر کی جانے والی جارحیت کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا ازالہ اور خطے میں دیرپا امن و استحکام کا قیام وہ بنیادی مسائل ہیں جن پر توجہ مرکوز کرنا از حد ضروری ہے۔

نیتن یاہو یا اس جیسے دیگر افراد کے خلاف گرفتاری کے حکم سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے عالمی صہیونیت کے نظام کو ختم کرنا ہوگا اور اس کے سرپرستوں کو جواب دہ بنانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کو بحال کرے گا بلکہ خطے میں دیرپا امن کا ضامن بھی بنے گا۔

لہٰذا اس وقت تمام آزاد اقوام اور انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوموں کے حقوق کے لیے ایک متحدہ مزاحمتی موقف اختیار کریں اور اسرائیل کے خلاف حقیقی اور مؤثر اقدامات کریں۔ یہی حقیقی انصاف اور پائیدار امن کی ضمانت ہے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسرائیلی جارحیت کا دائرہ فلسطینی سرزمین تک محدود نہیں رہا بلکہ لبنان پر کیے جانے والے حملے اور وہاں ہونے والی وسیع تباہی بھی صہیونی مظالم کی ناقابل تردید مثال ہیں۔ صہیونی افواج کے رہائشی علاقوں پر حملوں نے نہ صرف لبنانی عوام کو بے گھر کیا بلکہ ان کی معیشت، بنیادی ڈھانچے اور سماجی استحکام کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔

ایسے میں نیتن یاہو اور دیگر افراد کے خلاف وارنٹ گرفتاری کو انصاف کا مکمل پیمانہ قرار دینا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ انفرادی شخصیات کو ذمہ دار ٹھہرا کر ریاستی دہشت گردی کے منظم نیٹ ورک کو نظرانداز کرنا انصاف کے اصولوں کے صریح خلاف ہے۔

سامراجی طاقتوں کی منافقت اُس وقت کھل کر سامنے آتی ہے جب وہ غزہ اور لبنان میں انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش رہتی ہیں۔ مظلوم عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے، وہ نمائشی اقدامات کے ذریعے اپنے دامن کو صاف ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہیں۔ ایسے اقدامات نہ تو خطے میں امن قائم کریں گے اور نہ ہی صہیونی جارحیت کے سلسلے کو روک پائیں گے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے