پارا چنار پاکستان کا "غزہ” انصاف کا منتظر

fedar.jpg

پاراچنار، جو کئی دہائیوں سے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہا ہے، آج "پاکستانی غزہ” کا منظر پیش کر رہا ہے۔ یہاں کے عوام آئے روز دہشتگردوں کے حملوں، خوارجی گروہوں کی بدمعاشی اور حکومت کی بے حسی کا سامنا کرتے ہیں۔ دہشتگرد گروہ دن دیہاڑے وارداتیں کرتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں، جیسے ان کے پیچھے کوئی ہاتھ ہے، جو انہیں سہولت فراہم کر رہا ہے۔ پاراچنار کے عوام کا سوال ہے کہ کیا ان کی زمین صرف قربانی کا میدان ہے۔؟ کیا یہاں کے لوگوں کا خون اتنا سستا ہے۔؟ بدقسمتی یہ ہے کہ خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت دونوں اس وقت سیاست کے کھیل میں اس قدر مصروف ہیں کہ پاراچنار یا صوبے کے دیگر حساس علاقوں کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں۔ وعدے اور بیانات تو دیئے جاتے ہیں، لیکن عملی اقدامات ناپید ہیں۔ ہر خونریز سانحے کے بعد ایک روایتی مذمتی بیان جاری کر دینا کافی نہیں۔ یہاں کے عوام ریاست سے تحفظ کا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ریاست کو اب مزید تاخیر کیے بغیر سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاراچنار جیسے علاقوں کے عوام کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہونی چاہیئے۔ دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو تلاش کرکے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا اور متاثرین کو انصاف دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاراچنار کے عوام اب مزید لاشیں نہیں اٹھا سکتے۔ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ اپنی زمین پر امن و سکون کے ساتھ جی سکیں۔ حکومت اور سکیورٹی اداروں کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی، ورنہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔ پاراچنار کو پاکستانی غزہ نہ بننے دیں، اس کے زخموں پر مرہم رکھیں اور ان کے مستقبل کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ یہ وقت ہے کہ عملی اقدامات کیے جائیں، ورنہ یہ مظلوم خطہ اپنی امیدیں بھی کھو دے گا۔

یہ سانحہ صرف ایک حملہ نہیں بلکہ انسانیت کی اقدار پر حملہ ہے، ایک ایسا ظلم جو ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ معصوم شیرخوار بچوں کی بے گناہ آنکھوں میں خوف کے سائے، خواتین کی چیخوں میں بے بسی اور جوانوں کے بے جان لاشے اس ظلم کی داستان سناتے ہیں۔ یہ صرف لاشیں نہیں بلکہ ایک پوری قوم کے اعتماد، امن اور خوشحالی کے خوابوں کا قتل ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاراچنار کو جان بوجھ کر ایک ایسا میدان جنگ بنایا جا رہا ہے، جہاں امن کا کوئی تصور باقی نہ رہے۔ اس خطے کے لوگوں کو نہ صرف ان کے گھروں، زمینوں اور بچوں سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ ان کی امیدوں اور خوابوں کو بھی خون میں نہلایا جا رہا ہے۔ یہ وقت محض افسوس کرنے کا نہیں بلکہ جاگنے کا ہے، یہ وقت انصاف کے قیام کا ہے۔

ریاست کو نہ صرف اس مظلوم علاقے کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا بلکہ ان کے قاتلوں کو عبرت کا نشان بنانا ہوگا، تاکہ آئندہ کسی کو یہ ہمت نہ ہو کہ وہ انسانی زندگیوں کو یوں برباد کرے۔ پاراچنار کے باسیوں کو امن اور تحفظ کا حق ہے اور یہ حق انہیں ہر قیمت پر دیا جانا چاہیئے۔ یہ خونریز سانحہ صرف پاراچنار کے عوام کے لیے ہی نہیں، بلکہ پوری پاکستانی قوم کے لیے ایک شرمندگی کا مقام ہے۔ معصوم بچوں کے بے جان لاشے، ماؤں کی بے بسی اور بزرگوں کے آنسو ایک ایسے المیے کی تصویر پیش کرتے ہیں، جو ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ کیا یہ علاقہ جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، اب ہمیشہ کے لیے ماتم کدہ بن جائے گا؟ ہر شہید کا خون سوال کرتا ہے کہ ان کا قصور کیا تھا۔؟ کیا ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ایک امن پسند خطے میں جینا چاہتے تھے۔؟

پاراچنار کے عوام کی یہ آزمائشیں ان کے صبر، استقامت اور محبتِ وطن کا امتحان لے رہی ہیں۔ یہاں آئے روز خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے؛ لیکن ان کے درد اور آہوں کو سننے والا کوئی نہیں۔ ان مظلوموں کے کٹے ہوئے بازو اور زخمی دل صرف انصاف کے طلبگار ہیں۔ یہ مائیں، جو اپنے بچوں کے مستقبل کے خواب دیکھتی تھیں، اب انہیں قبرستان کی مٹی میں دفن کر رہی ہیں۔ یہ جوان، جو ترقی کے خواب سجائے ہوئے تھے، اب اپنے ہاتھوں میں جنازے اٹھا رہے ہیں۔ پاراچنار کے شہداء کی قربانیاں ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں۔ یہ وقت دکھ بانٹنے اور زخم پر مرہم رکھنے کا ہے، وعدوں اور بیانات کا نہیں۔ یہ معصوم انسانیت کی چیخیں ہیں، جو انصاف، تحفظ اور امن کے لیے پُکار رہی ہیں۔ اگر ان آوازوں کو آج بھی نہ سنا گیا تو یہ خاموشی ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب بن جائے گی، جو ہمیں ہمیشہ ملامت کرتا رہے گا۔
تحریر: امداد علی گھلو

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے