سانحہ پارا چنار ” عینی شاہدین” کیا کہتے ہیں

4c69c53149f8f52fikv_800C450.jpg

سانحہ پارا چنار میں شہید ہونے والوں کی تعداد 80 سے بڑھ چکی ہےـ یہ سانحہ آج لوئر کرم کے علاقے مندروی میں اس وقت پیش آیا جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں پشاور سے پارہ چنار جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر اس سڑک پر حملہ ہوا جسے حال ہی میں کھولا گیا تھا۔مندروی کے بنیادی مرکزِ صحت میں تعینات ڈاکٹر محمد نواز نے نمائندہ بصیر میڈیا کو بتایا کہ وہاں اب تک 45 لاشیں لائی گئی ہیں جن میں چھ خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ لاشیں اور آٹھ زخموں کو علیزی کے ہسپتال میں لایا گیا ہے۔فائرنگ کا نشانہ بننے والے قافلے کے مسافروں میں شامل پیر حسین شاہ نے کو بتایا کہ جب قافلہ پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہوا تو ’اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی جس میں بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آج وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے

’جب پارا چنار کی حدود میں داخل ہوئے تو سکیورٹی سے کہا قافلہ بڑا اور سیکورٹی اہلکار کم ہیں‘

فائرنگ کا نشانہ بننے والے قافلے کی حفاظت پر مامور ایک اہلکار نے نامہ نگار کو بتایا کہ ’ہم پانچ سے چھ اہلکار تھے، پتا نہیں چلا کہ فائرنگ کہاں سے ہوئی۔ ہمارا ایک ساتھی بھی فائرنگ سے زخمی ہوا ہے۔‘عینی شاہدین اور کرم پولیس کے مطابق ’قافلے پر تین مختلف علاقوں میں مورچے لگا کر فائرنگ کی گئی اور کم از کم چودہ کلومیٹر کے علاقے میں قافلے پر فائرنگ ہوتی رہی۔ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں فائرنگ ہوئی ان میں مندوری، بھگن اور اوچھات شامل ہیں۔

عینی شاہد نصیر خان نے بتایا کہ قافلے میں شامل بچ جانے والی گاڑیاں جب ایک علاقے سے نکل کر دوسرے علاقے میں جاتیں تو پھردوسرے علاقے میں ان پر فائرنگ کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ ان تین علاقوں تک جاری رہا تھا۔یاد رہے اسے قبل 12 اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں ہوئے مسافر ویگن قافلے پر حملے کے نتیجے میں 15 افراد کی ہلاکت کے بعد سے پاڑہ چنار، پشاور روڈ ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند تھی۔
سعیدہ بانو پشاور میں ملازمت کرتی ہیں وہ بھی اس قافلے میں شامل تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’جب پشاور سے پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت میں نے اپنی گاڑی سے اتر کر سکیورٹی فورسز سے کہا کہ ’قافلہ بڑا ہے اور سکیورٹی اہلکار کم ہیں مگر مجھے کہا گیا کہ گاڑی میں بیٹھ جاؤ سب ٹھیک ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں قافلے کے درمیان میں تھی۔ پہلے مجھے ایسے لگا کہ گاڑیوں کے قافلے کے پیچھے سے فائرنگ کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے بعد مجھے لگا کہ میرے سامنے بھی فائرنگ ہو رہی ہے۔ اس موقع پر میں نے اپنے بچوں کو گاڑی کی سیٹ کے نیچے کر دیا تھا۔ کئی منٹ تک ہر طرف سے فائرنگ ہوتی رہی تھی۔سعیدہ بانو کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگا کہ آج میں بچوں سمیت ماری جاؤں گی۔ مگر قافلے کے درمیان میں گاڑیوں کو زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ وہ گاڑیاں جو شروع اور آخر میں تھیں وہ براہ راست ٹارگٹ تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’جب فائرنگ ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ہر طرف زخمی اور لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ کوئی چیخ رہا تھا اور کوئی ہلاک ہو چکا ہے۔ اس موقع پر کچھ لوگوں نے زخمیوں کی مدد کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔سعیدہ بانو کا کہنا تھا کہ اس قافلے میں شاید ایک خاتون ڈاکٹر یا نرس تھی اور وہ دوڑ دوڑ کر زخمیوں کی مدد کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔‘

ضلع کرم اہم کیوں ہے؟

پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔

کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سُنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔

’کُرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔رواں سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک بار پھر شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تو ساتھ ہی ساتھ چھ روز تک علاقے کے باسیوں کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو گیا۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے