روس یوکرائن جنگ کے 1000 دن
روس اور یوکرین کی جنگ کی کشیدگی کو اگرچہ 10 برس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوگیا تھا جب روس نے فروری 2014ء میں یوکرینی علاقے کریمیا پر قبضہ کیا تھا جس کے بعد یوکرین نے مزید روسی جارحیت سے بچنے کے لیے نیٹو رکنیت حاصل کرنے کی کوشش شروع کی تو روس نے فروری 2022ء میں اس پر حملہ کر دیا۔ابتدا میں روس نے اسے محدود ملٹری آپریشن کا نام دیا تھا کہ چند روز میں اہداف حاصل کرکے رشین فورسز بیرکوں میں واپس آجائیں گی۔ مگر یوکرینی سرزمین روس کے لیے ایک ایسی دلدل ثابت ہوئی، جس سے کوشش کے باوجود روس باہر نہ سکا اور دھنستا چلا گیا۔
یوں اب اس “محدود” عسکری کارروائی کے ایک ہزار دن پورے ہوگئے۔ 1000 دنوں کی جنگ کے دوران روس اور یوکرین دونوں دشمن کے جانی و مادی نقصانات کے بارے میں متضاد اور مبالغہ آمیز دعوے کرتے رہے، جن پر یقین کرنا دشوار ہے۔ مگر آزاد ذرائع نے ہزار روز مکمل ہونے پر اس پر جو رپورٹس شائع کی ہیں، ان کی روشنی میں حقیقی اعداد و شمار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔فرانس کے مشہور ہفتہ روزے لی پوائنٹ Le Point میگزین نے لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ روس یوکرین کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن میں ہے اور 24 فروری 2022ء کو روسی صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے شروع کیا گیا “خصوصی فوجی آپریشن” کامیابیاں سمیٹ رہا ہے، لیکن یہ کامیابیاں بھاری قیمت کے عوض حاصل ہو رہی ہیں۔
کلیمن ماشکور کی میگزین میں لکھی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق روسی مسلح افواج، 2023ء کے موسم گرما میں یوکرین کے جوابی حملے کو پسپا کرنے کے بعد، اکتوبر سے حملہ کرنے کی پوزیشن میں واپس آگئیں اور وہ منظم طریقے سے ڈونباس کے علاقے پر پیش قدمی کر رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شہر اب روسیوں کا حقیقی گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ان فتوحات کے پیچھے خون اور پیسہ دونوں پانی کی طرح بہائے جا رہے ہیں۔ روس جنگ کے آغاز سے اب تک 320 بلین ڈالر کے مساوی رقم یعنی 320 ملین ڈالر روزانہ خرچ کر رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا ہے۔ ایک سال کے دوران روس میں افراط زر کی شرح میں 9 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے اور روسی مرکزی بینک کلیدی شرح سود کو 21 فیصد تک بڑھانے پر مجبور ہوا ہے۔
اگرچہ روسی علاقے کرسک میں یوکرین کے حملے نے روسیوں کو بڑا جھٹکا دیا، لیکن اس سے کوئی بڑی عسکری تبدیلی یا نقصان نہیں ہوا، اب سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی، روسی یوکرین کے شہروں اور توانائی کے انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنانے والے ڈرونز اور بیلسٹک میزائلوں کے حملے شروع کر رہے ہیں، اس کے باوجود یوکرینی فضائیہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے 100 میزائل اور 42 ڈرون مار گرائے ہیں۔
جانی اور مادی نقصانات:
رپورٹ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونے سے کیف کو ملنے والی فوجی امداد کمزور ہو جائے گی۔ اگرچہ امریکی نو منتخب صدر نے یورپ میں امن کی واپسی کو اپنے انتخابی وعدوں میں سے ایک قرار دیا، لیکن انہوں نے سوال کیا: “ہم اس شخص کو اربوں ڈالر دیتے رہیں جو معاہدہ کرنے سے انکار کرتا ہے؟” اشارہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی طرف تھا چونکہ امریکہ یوکرین کو سب سے زیادہ فوجی امداد فراہم کرتا ہے، اب تک تقریباً 570 بلین ڈالر دے چکا ہے، لیکن تجارت پیشہ ٹرمپ کے لیے یہ فیاضی مزید جاری رکھنا آسان نہیں ہوگا، وہ اقتدار میں آنے کے بعد مذاکرات کے لیے کیف پر دبائو ڈال سکتے ہیں۔ کریملن مضبوط پوزیشن پر ہے۔
البتہ صدر جو بائیڈن نے یوکرین کو امریکی ساختہ ATAC میزائلوں کے ساتھ روس کے اندر حملہ کرنے کی اجازت دینے کے بعد روس کو اب ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ اس لیے اب روسی صدر کی جانب سے ایک بار پھر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔اس وقت جو صورتحال ماسکو کے حق میں ہے، اس نے بہت بھاری قیمت وصول کی ہے۔ کیونکہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک روس کے 7 لاکھ فوجی ہلاک، زخمی، لاپتہ اور قید ہو چکے ہیں اور روزانہ مرنے والوں کی تعداد 1500 سے 2000 تک پہنچ چکی ہے۔
میگزین کے مطابق 2022ء میں یہ تعداد 200 سے زیادہ نہیں تھی۔ جس کے نتیجے میں روسی فوج کو افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شمالی کوریا سے 10 ہزار افراد کو بھرتی کرنے کی پلاننگ کر رہا ہے، لیکن اس میں اسے کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک ہزار روزہ جنگ کے دوران روس یوکرین کی صرف 10.82 فیصد زمین پر قبضہ کرسکا ہے۔ گویا مزید 10 فیصد علاقے پر قبضے کے لیے روس کو کئی لاکھ فوجیوں کی قربانی دینی پڑ سکتی ہے۔جہاں تک مادی نقصانات کا تعلق ہے تو اس کے اعداد و شمار بھی نہایت ہوش ربا ہیں۔ اس جنگ کے دوران روس کی تقریباً 20 ہزار گاڑیاں، ٹینک، طیارے وغیرہ تباہ ہو چکے ہیں۔ جن میں 3569 ٹینک اور 5008 گاڑیاں ہیں، جب کہ فضائیہ کے 132 طیارے اور 147 ہیلی کاپٹر تباہ ہو چکے ہیں۔ بحیرہ اسود میں روسی بحری بیڑے کے تقریباً 20 جہاز یوکرینی حملے میں ڈوب گئے اور باقی جہازوں کو دور دراز کی بندرگاہوں میں پناہ لینی پڑی، جس سے یوکرین نے اپنی گندم کی فروخت جاری رکھی، جو اس کی برآمدات کا 40 فیصد ہے۔
اگرچہ روسی معاشرہ اس وقت بہت زیادہ متاثر نہیں ہوا ہے، لیکن اس جنگ کا ایک نہایت منفی اثر یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ملکی آبادی کم ہو رہی ہے۔ ایک طرف لوگ ملک سے فرار ہو رہے ہیں تو دوسری جانب شرح پیدائش میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ آنے والے برسوں میں روس کی آبادی میں مزید کمی متوقع ہے۔ 2030ء میں یہ 146 ملین سے 142 تک اور پھر 2040ء میں 138 ملین تک کم ہونے کا خطرہ ہے۔ روس میں شرح پیدائش فی خاتون 1.5 ہے، اس کے مقابلے میں فرانس میں 1.79 ہے۔ حالانکہ نسل کی بقا کے لیے کم از کم مطلوبہ شرح 2.1 ہے۔
یوکرین کے نقصانات:
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ جنگ کے آغاز سے اب تک یوکرین کے 11 ہزار 700 سے زیادہ شہری ہلاک اور 24 ہزار 600 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں تاہم رپورٹس بتاتی ہیں کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، خاص طور پر ماریوپول جیسے علاقوں میں، جہاں تک رسائی مشکل ہے، یہ ایک ایسا شہر ہے، جو بڑے پیمانے پر تباہی کا شکار ہوا اور اب روسی افواج کے کنٹرول میں ہے۔یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ جنگ کی وجہ سے تقریباً 600 بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان شہری نقصانات کے باوجود، متاثرین کی اکثریت فوجیوں کی ہے، جو براہ راست لڑائیوں کے دوران بھاری ہتھیاروں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوگئے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے پہلے بیان کیا تھا کہ روسیوں کے ساتھ لڑائی کے دوران 31 ہزار سے زیادہ فوجی مارے گئے۔ تاہم انہوں نے زخمیوں یا لاپتہ ہونے والوں کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی۔
معاشی نقصانات:
جنگ کے نتیجے میں یوکرین کی معیشت کو بھی بڑا دھچکا لگا ہے۔ 2022ء میں یہ ایک تہائی تک سکڑ گئی۔ اگلے دو برسوں میں معمولی بہتری کے باوجود، معیشت اب بھی جنگ سے پہلے کے اپنے حجم کے 80 فیصد سے بھی کم کی نمائندگی کرتی ہے۔ عالمی اداروں، بشمول ورلڈ بینک، یورپی کمیشن، اقوام متحدہ اور یوکرینی حکومت کی طرف سے کئے گئے حالیہ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ نے دسمبر 2023ء تک یوکرین کو 152 بلین ڈالر کا براہ راست نقصان پہنچایا۔اس نقصان میں خاص طور پر اہم شعبے شامل تھے۔ جیسے رہائش، نقل و حمل، تجارت، صنعت اور زراعت۔ یوکرینی حکومت اور عالمی بینک نے گزشتہ سال کے آخر میں تعمیر نو اور بحالی کی کل لاگت کا تخمینہ تقریباً 486 بلین ڈالر لگایا تھا، جو کہ 2023ء میں یوکرین کی کل مجموعی پیداوار سے تقریباً 2.8 گنا زیادہ ہے۔