اسرائیل میں حماس سے معاہدے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لئے مظاہروں میں شدت
حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لئے اسرائیل کے اندر مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہےاور گذشتہ تین دنوں کے دوران تل ابیب اور دیگر شہروں میں ہزاروں مظاہرین نے حماس کے ساتھ یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کا مطالبہ کرنے کے لیے احتجاج کیا۔
اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے عرب میڈیاکی رپورٹس کے مطابق غزہ سے چھ مردہ اسیران کی بازیابی کے بعد ملک کےمختلف حصوں میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔مظاہرین نے تل ابیب میں بیگن روڈ کو بلاک کر دیا اور نعرے لگاتے ہوئے احتجاج کیا۔ مظاہرین کہہ رہے تھے کہ یرغمالیوں واپس لانا چاہیے۔نیتن یاہو نے انہیں چھوڑ دیا۔وہ حکومت کرنے کے قابل نہیں اور ساتھ ہی یہ کہ ہم انہیں زندہ چاہتے ہیں تابوتوں میں نہیں۔ احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان بیگن روڈ پر لڑائی شروع ہو گئی اور پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔
ایک اور بڑا مظاہرہ تل ابیب کے قریب رہوت میں ہوا۔ جہاں غزہ کی پٹی میں قید ایک فوجی نمرود کوہن کے خاندان کی حمایت کے لیےہزاروں لوگ جمع ہوئے۔ مظاہرین نےاحتجاج کرتے ہوئے یرغمالیوں کی رہائی کے لئے حکومت سے حماس سے معاہدے کا مطالبہ کیا۔اسی طرح ہرزلیہ میںبھی ہزاروں افراد کنی سیٹ کے رکن یولی ایڈلسٹائن کے گھر کے قریب جمع ہوئے، جو کنیسٹ کی سیکیورٹی اور دفاعی کمیٹی کی سربراہ ہیں۔ مظاہرین روٹ 4 پر راعانہ جنکشن پر بھی جمع ہوئے، جہاں ڈرائیور زبھی یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے رک گئے۔
اسرائیل کا اندازہ ہے کہ غزہ میں حماس کے ہاتھوں 100 سے زائد یرغمال ہیں۔ جن میں سے بعض کے بارے میں خیال ہے کہ وہ پہلے ہی مارے جا چکے ہیں۔امریکا، قطر اور مصر ایک ماہ سے کوشش کر رہے ہیں کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے معاہدے کو یقینی بنایا جائے اور انسانی امداد کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی جائے۔ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی طرف سے حماس کے جنگ روکنے کے مطالبات ماننے سے انکار کی وجہ سے ثالثی کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں