لبنان کی دلدل اور غاصب اسرائیل کی بے بسی

635c94c04faaef690ced47bcefd3c77eabd076b2.jpg

حزب اللہ لبنان کے خلاف اسرائیل کی دشمنی چار دہائیوں سے جاری ہے؛ لیکن ہر نئی جارحیت کے بعد اسرائیل کی ناکامی کے نئے باب رقم ہو رہے ہیں۔ حالیہ صورتحال میں، اسرائیلی سربراہوں کے بیانات نے نہ صرف ان کی عسکری ناکامی کو واضح کیا، بلکہ حزب اللہ کی مضبوطی اور ناقابلِ شکست حیثیت کو بھی دنیا کے سامنے عیاں کیا ہے۔اسرائیلی ریٹائرڈ جنرل اسحاق بریک اور سابق کمانڈر نوام تیبون کے بیانات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسرائیل اب حزب اللہ کے خلاف اپنی روایتی دھمکیوں اور حملوں سے آگے بڑھ کر عملی شکست کو قبول کر رہا ہے۔

اسحاق بریک نے کھلے الفاظ میں اعتراف کیا کہ لبنان میں جنگ کے دوران اسرائیل کو شدید جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ حزب اللہ کے میزائل اسرائیل کو مسلسل تباہ کر رہے ہیں۔ اس بیان نے اسرائیلی عوام میں خوف و ہراس کو مزید بڑھا دیا ہے۔ دوسری طرف نوام تیبون نے حزب اللہ کے ساتھ فوری معاہدے کی ضرورت پر زور دیا، کیونکہ لبنان میں جاری محاذ اسرائیل کو دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اسرائیل نہ تو حزب اللہ کو غیر مسلح کر سکتا ہے اور نہ اسے ختم کر سکتا ہے۔ یہ بیانات اس حقیقت کا اعتراف ہیں کہ حزب اللہ خطے میں ایک ناقابل تسخیر قوت بن چکی ہے۔

اسرائیل کی یہ بے بسی صرف عسکری ناکامی تک محدود نہیں، بلکہ اس کا گہرا تعلق حزب اللہ کی اس حکمت عملی سے بھی ہے جو اس نے گزشتہ چند دہائیوں میں اپنائی ہے۔ حزب اللہ نے اپنی عسکری طاقت کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت، روحانی و معنوی قیادت اور بین الاقوامی مقاومتی تحریکوں کے ساتھ مضبوط تعلقات کو اپنا اثاثہ بنایا ہے۔ یہ تنظیم نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے میں مظلوموں کی امید اور سامراجی طاقتوں کے خلاف مقاومت کی علامت بن چکی ہے۔

حزب اللہ کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اس کا عوامی حمایت حاصل کرنا ہے۔ لبنان کے عوام حزب اللہ کو اپنی حفاظت کی ضمانت سمجھتے ہیں، خاص طور پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف۔ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے مسلسل حملے، جن کا مقصد حزب اللہ کو کمزور کرنا تھا، دراصل حزب اللہ کی مقبولیت میں اضافہ کا سبب بنے ہیں۔ حزب اللہ کی قیادت، جس میں ولایت فقیہ اور مرجعیت کا اثر نمایاں ہے، نے ہمیشہ اپنی جنگ کو ایک مقصد اور نظریے کے ساتھ جوڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ کو صرف ایک عسکری تنظیم کے طور پر دیکھنا اس کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کا اندرونی بحران اور اس کی ناکام اسٹریٹیجی اسے مزید کمزور کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں تل ابیب اور دیگر شہروں میں حزب اللہ کے حملے اسرائیل کی دفاعی پالیسی کی ناکامی کو بے نقاب کر چکے ہیں۔ اسرائیل کی دفاعی دیوار، جسے ناقابل تسخیر کہا جاتا تھا، حزب اللہ کے میزائل حملوں کے سامنے بے اثر ثابت ہو رہی ہے۔ یہ حملے نہ صرف عسکری تنصیبات بلکہ اسرائیلی عوام کے حوصلے کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔

اسرائیل کے بڑوں کی جانب سے حزب اللہ کے ساتھ معاہدے کی باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسرائیل اب جنگ کے بجائے مذاکرات کو اپنے لیے محفوظ راستہ سمجھ رہا ہے؛ لیکن یہ سوال باقی ہے کہ کیا حزب اللہ، جو خود کو مظلوموں کے دفاع اور سامراجی طاقتوں کے خلاف مقاومت کے لیے وقف سمجھتی ہے، اسرائیل کے ساتھ کسی معاہدے پر آمادہ ہوگی؟ حزب اللہ کی مقاومتی پالیسی اور اس کے اصولی موقف کو دیکھتے ہوئے، یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کسی مشروط سمجھوتے پر تیار ہوگی۔

حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی ناکامی صرف اس کی عسکری کمزوری کا اظہار نہیں بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ طاقت اور دولت کے بل بوتے پر ایک نظریاتی اور عوامی تحریک کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ حزب اللہ کی کامیابی خطے کے دیگر مقاومتی گروہوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والے ہمیشہ سرخرو رہتے ہیں۔

آج، حزب اللہ نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے میں سامراجی طاقتوں کے خلاف ایک ناقابل شکست دیوار بن چکی ہے۔ اسرائیل، جو خود کو خطے کی سب سے بڑی عسکری قوّت سمجھتا تھا، حزب اللہ کے سامنے اپنی بے بسی کا اعتراف کر رہا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ حق کے راستے پر چلنے والی قوموں کو نہ تو خوفزدہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ حزب اللہ کی مضبوطی اور اسرائیل کی بے بسی خطے میں طاقت کے توازن کو بدل رہی ہے اور یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ظلم کی طاقت ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہ سکتی۔

حزب اللہ کی طاقت اور اسرائیل کی بے بسی کے اس تناظر میں ایک اور اہم پہلو اسرائیل کی اندرونی تقسیم اور اس کے سماجی بحران ہیں، جو اس کے دفاعی اور عسکری نظام پر گہرا اثر ڈال رہے ہیں۔ حزب اللہ کے حملوں کے نتیجے میں اسرائیلی عوام کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی اور خوف نے اسرائیل کی حکومت کو دباؤ میں ڈال دیا ہے۔ عوامی حمایت کے بغیر، کوئی بھی حکومت طویل المدتی جنگی اسٹریٹیجی برقرار نہیں رکھ سکتی اور یہ صورتحال اسرائیل کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

مزید برآں، حزب اللہ کے حالیہ حملوں نے اسرائیل کے انٹیلی جنس نیٹ ورک اور دفاعی نظام کی خامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اسرائیلی فوج، جو خود کو خطے کی سب سے طاقتور فوج سمجھتی تھی، آج حزب اللہ کے میزائلوں اور ڈرون حملوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ حزب اللہ نہ صرف ایک عسکری قوّت ہے بلکہ ایک پیچیدہ اور مؤثر حکمت عملی کے ذریعے اپنے دشمن کو ناکامی کی طرف دھکیل رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل، جو کبھی طاقت کے ذریعے حزب اللہ کو ختم کرنے کے خواب دیکھتا تھا، اب حزب اللہ کے ساتھ کسی معاہدے کی ضرورت پر زور دے رہا ہے؛ لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ حزب اللہ اپنے اصولوں اور مقاومتی نظریے کے ساتھ کبھی بھی کسی ایسے سمجھوتے پر آمادہ نہیں ہوگی جو اس کی آزادی کی جدوجہد کو نقصان پہنچائے۔ حزب اللہ کے لیے یہ جدوجہد صرف لبنان کی آزادی تک محدود نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی عزت اور وقار کے تحفظ کی علامت ہے۔

یہ صورتحال اسرائیل کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ ظلم اور جارحیت کے ذریعے امن اور طاقت کا قیام ممکن نہیں۔ حزب اللہ نے ثابت کیا ہے کہ ایمان، نظریے، قربانی اور عوامی حمایت کے بل بوتے پر دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقتوں کو بھی جھکایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو آنے والے دنوں میں خطے کی سیاست اور طاقت کے توازن کو ہمیشہ کے لیے بدل سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے