لیبیا کے بلدیاتی انتخابات اور نوجوان ووٹر

libyainterna.jpg

لیبیا کے نوجوانوں کی اکثریت سنیچر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لیے متحرک نظر آ رہی ہے اور بہت سے نوجوان شمالی افریقہ کے اس منقسم ملک میں پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔عرب نیوز کے مطابق لیبیا میں معمر کرنل قذافی کی 2011 میں معزولی کے بعد سے شاذ و نادر ہی کوئی پولنگ ہوئی ہے۔مصر کے شمال مغربی شہر مصراتہ سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ رضوان ارفیدہ نے کہا ہے کہ یہاں انتخابات ایک نیا تصور ہے کیونکہ انہوں نے اور دیگر رضاکاروں نے بے تابی سے انتظار کیا اور پولنگ سے قبل ممکنہ ووٹرز کے ساتھ مصروف رہے۔انہوں نےنمائندہ بصیر میڈیا کو بتایا کہ ابھی ہمیں اس عمل کو قبول کرنے اور سمجھنے میں مدد اور آگہی مہم کی مزید ضرورت ہے۔

تیل کی دولت سے مالا مال اور 73 لاکھ آبادی پر مشتمل لیبیا 2011 میں کرنل قذافی کی چار دہائیوں کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد برسوں کے تنازعات سے نکلنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔لیبیا اس وقت دارالحکومت طرابلس میں قائم اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت اور مشرق میں ایک حریف انتظامیہ جس کی حمایت فوجی طاقتور خلیفہ حفتر کر رہے ہیں ان کے درمیان تقسیم شدہ ہے۔حالیہ انتخابات کاانعقاد ملک کی 142 میں نصف سے بھی کم 58 میونسپلٹیوں میں کیا جا رہا ہے، یہ گذشتہ دہائی میں ہونے والے پہلے انتخابات ہیں جو مشرقی اور مغربی لیبیا دونوں میں بیک وقت منعقد کیے گئے ہیں۔

لیبیا کے تیسرے بڑے شہر مصراتہ میں اکثر دیواریں امیدواروں کے انتخابی مہم کے پوسٹروں سے ڈھکی ہوئی ہیں، پولنگ کے علاقوں میں تقریباً 190,000 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔مصراتہ کے 25 سالہ رضاکار محمد المہر کے لیے لیبیا کے جمہوری عمل میں امید کی بحالی موجود ہے، انہوں نے ہائی نیشنل الیکشن کمیشن کی طرف سے لگائے گئے پوسٹر ’آپ کی آواز آپ کی میونسپلٹی بناتی ہے‘ پڑھتے ہوئے زیادہ ٹرن آؤٹ کی امید کی ہے۔محمد المہر نے نمائندہ کو بتایا کہ ’ہم حالیہ انتخابات اور آئندہ انتخابات کے ذریعے اپنے عوام کے خوابوں کو حقیقت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ عوام انتخابات میں حصہ لیں اور ایسے امیدواروں کا انتخاب کریں جن کا وژن ان سے ملتا ہو۔

لیبیا میں کرنل قذافی کے 40 سال سے زائد دور حکمرانی کے خاتمے کے بعد پہلے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات 2012 میں کرائے گئے۔ملک میں کامیاب سمجھے جانے والے دو انتخابات کے بعد جون 2014 میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن تشدد کی وجہ سے انتہائی کم ٹرن آؤٹ سے متاثر ہوئے۔مغربی شہر طرابلس سمیت چند شہروں میں 2019 اور 2021 کے درمیان متعدد بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں۔

بعدازاں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات جن کا مقصد ایک منقسم ملک کو متحد کرنا تھا، 2021 کے آخر میں شیڈول تھے جو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے گئے۔طرابلس میں قائم انتظامیہ کی سربراہی وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ کر رہے ہیں، جب کہ مشرق میں، حفتر انتظامیہ کے ماتحت پارلیمان توبروک میں مقیم ہے۔مصراتہ میں 29 سالہ امیدوار نوح زگوت کا کہنا ہے کہ ’ہم بوڑھوں کو سیاست پر اجارہ داری کرتے دیکھ دیکھ کر تھک چکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ نوجوان میدان جنگ کے علاوہ ملکی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیں۔

نوح زگوت جو فارماسسٹ ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کے پاس سیاسی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے علم اور ضروری صلاحیت دونوں موجود ہیں۔انہوں نے مزید کہا لیبیا میں نوجوان جو سیاست میں حصہ لینے کے خواہشمند ہیں بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنتے ہیں، خاص طور پر ایسے بزرگوں کی طرف سے جو اب اداروں کی قیادت کرنے کے قابل نہیں اور ہمیں اس طرح کے رویوں نے انتخاب میں حصہ لینے کی ترغیب دی ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے