’بشریٰ بی بی کا پردے کے پیچھے سے خطاب‘، عمران خان کا پیغام یا سیاست؟
کچھ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب پاکستان تحریک انصاف اپنے بانی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے حوالے سے مخالفین کے سیاسی الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کرتی تھی کہ وہ ایک گھریلو خاتون ہیں اور ان کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔وقت بدلا عمران خان جیل پہنچے اور بعدازاں بشریٰ بی بی کو بھی سزا سنا دی گئی۔ اس سے پہلے کہ پولیس انہیں گرفتار کرنے زمان پارک پہنچتی، بشریٰ بی بی ایک بڑے سیاست دان کے انداز میں گرفتاری دینے خود اڈیالہ جیل پہنچ گئیں۔صرف یہی نہیں بلکہ جب انتظامیہ نے بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے کے بشریٰ بی بی کو یہاں پر منتقل کر دیا تب بھی انہوں نے خود عدالت سے رجوع کر کے بنی گالہ کی بجائے اڈیالہ منتقلی کی درخواست دی، اور عدالتی حکم کے نتیجے میں انہیں اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔جیل ٹرائل کے دوران بھی بشریٰ بی بی عمران خان کے ساتھ جس ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی رہیں اور ایک کے بعد دوسری سزا سننے کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری تو ان کے بارے میں یہ تاثر غلط ثابت ہو گیا کہ وہ صرف گھریلو خاتون ہیں۔
جیل سے رہائی کے بعد وہ وزیراعلٰی ہاؤس پشاور پہنچیں تو بظاہر یہ فیصلہ مزید کسی گرفتاری سے بچنے کے لیے تھا لیکن ان کے وہاں پہنچتے ساتھ ہی تحریک انصاف کے رہنماؤں کی بارہا وزیراعلٰی ہاؤس آمد نے اس امر کو ظاہر کیا کہ بشریٰ بی بی سیاسی طور پر متحرک اور اپنے پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔پشاور منتقلی سے بعد سے اب تک وہ آئے روز اڈیالہ جیل اور دیگر عدالتوں میں اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے جہاں محو سفر رہتی ہیں وہیں وہ پشاور میں وزیراعلٰی ہاؤس میں پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں بھی مصروف ہیں۔ان کی سیاسی سرگرمیوں اور 24 نومبر کی حتمی احتجاجی کال کے حوالے سے تیاریوں اور پارٹی رہنماؤں کے اجلاس کی صدارت کی خبریں سامنے آئیں تو تحریک انصاف کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی، البتہ جمعے کو پشاور میں وزیراعلٰی ہاؤس میں پی ٹی آئی کا اجلاس ہوا جس کی صدارت بیرسٹر گوہر نے کی۔ اجلاس میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے رہنما شریک ہوئے۔اجلاس سے بشریٰ بی بی نے بھی خطاب کیا۔ ذرائع کے مطابق بشری بی بی پردے کے پیچھے سے رہنماؤں سے مخاطب ہوئیں۔
اجلاس کے حوالے سے ان کی ترجمان مشعال یوسفزئی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’عمران خان کے احکامات پر بشریٰ بی بی نے بھی پی ٹی آئی لیڈرشپ کو ہدایات پہنچائیں۔ بشری بی بی سب کچھ بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر کر رہی ہیں۔ اہلیہ ہونے کے ناطے بشری بی بی نے پارٹی سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے متعلق بھی بات چیت کی۔انہوں نے کہا کہ ’بشری بی بی نے کہا ہے کہ بانی کی ہدایت کے مطابق اس بار سخت احتجاج ریکارڈ کیا جائے گا۔مشال یوسف زئی کا مزید کہنا تھا کہ بشری عمران خان کی سیاست میں انٹری کی تمام باتیں من گھڑت ہیں۔ وہ عمران خان کی اہلیہ ہونے کے ناطے تمام فرائض پورے کر رہی ہیں۔ یہ ان کا فرض بھی ہے اور حق بھی۔ خان صاحب کا پیغام اور دِیا گیا لائے عمل ان کے احکامات کے مطابق بشریٰ عمران خان کے ذریعے من و عن پارٹی تک پہنچ چکا ہے۔
بشریٰ بی بی اس وقت جو بھی کر رہی ہے عمران خان کے احکامات اور ہدایات کے مُطابق کر رہی ہے۔ یہ سیاست نہیں ہو رہی یہ جہاد ہے۔قبل ازیں اس معاملے پر جب اڈیالہ جیل میں جیل ٹرائل کے دوران عمران خان سے اس بابت پوچھا گیا تو انہوں نے واضح طور پر یہ بتایا کہ بشریٰ بی بی کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب عمران خان سے تمام رابطے منقطع کر دیے گئے ہیں اور پارٹی قیادت کی ان سے ملاقات نہیں ہو رہی تو ایسے میں بشریٰ بی بی کے ذریعے پارٹی رہنماؤں تک پیغام پہنچایا جا رہا ہے۔اپنی گفتگو میں عمران خان نے بھی واضح کیا کہ بشریٰ بی بی کا نہ تو کوئی سیاست سے تعلق ہے اور نہ ہی وہ سیاست میں کبھی حصہ لیں گی۔ لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ بشریٰ بی بی پارٹی رہنماؤں کے اجلاس کی صدارت کیوں کر رہی ہیں تو اس پر انہوں نے نہ تو اس کی تردید کی اور نہ ہی کوئی اور جواب دیا۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے ذرائع اس بات کی بھی تصدیق کر رہے ہیں کہ بشریٰ بی بی پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ ارکان اسمبلی سے فرداً فرداً اور وفود کی شکل میں بھی ملاقاتیں کر رہی ہیں۔اگرچہ پاکستانی سیاست میں کسی بھی بڑے سیاستدان کہ اہل خانہ بالخصوص اہلیہ کی جانب سے سیاسی میدان میں قدم رکھنا کوئی معیوب نہیں ہے۔ اور اگر وہ پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر بھی رہی ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن تحریک انصاف کی خاندانی سیاست کے خلاف پالیسی اور عمران خان کے سخت موقف کے باعث تحریک انصاف بشری بی بی کے سیاسی کردار کو عوامی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ماضی میں پاکستانی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو جب ذوالفقار علی بھٹو جیل میں تھے تو بیگم نصرت بھٹو نے بھرپور سیاسی تحریک چلائی اور پارٹی قیادت سنبھال کر کارکنان کو متحرک کیے رکھا۔سنہ 1999 میں پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو نواز شریف جیل میں چلے گئے اور ان کی غیرموجودگی میں جب پارٹی رہنما خاموش ہوئے تو بیگم کلثوم نواز نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور بھرپور تحریک چلائی۔ ان کی اسی تحریک کی وجہ سے انہیں مادر جمہوریت بھی کہا جاتا ہے۔
جلا وطنی کے بعد سے لے کر نواز شریف کی نااہلی تک بیگم کلثوم نواز دوبارہ سیاست میں کبھی سرگرم نہیں ہوئیں البتہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد انہوں نے خالی ہونے والی نشست پر انتخاب لڑا اور جیتا بھی لیکن بیماری کے باعث نہ تو وہ اس الیکشن کی انتخابی مہم چلا سکی اور نہ ہی کامیابی کے بعد حلف اٹھانے کے لیے موت نے انہیں مہلت دی۔
البتہ خاندانی سیاست کے معاملے پر تحریک انصاف اور عمران خان کا موقف واضح رہا ہے کہ پارٹی رہنماؤں کے اہل خانہ بالخصوص پارٹی کے چیئرمین کے اہل خانہ کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف بشریٰ بی بی کے عملی سیاست میں آنے کو عوامی سطح پر تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف زیرِعتاب ہے اور پارٹی کے رہنما اپنے کارکنان کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکے۔ عمران خان نے علیمہ خان کے ذریعے 24 نومبر کی حتمی کال کا اعلان کیا تو دوسری جانب پشاور میں مقیم بشریٰ بی بی نے سیاسی رہنماؤں کو اس احتجاج کے حوالے سے سرگرم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔