اسرائیل غزہ میں منظم نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی
اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی نے کہا ہے کہ اسرائیل کا غزہ میں جنگ لڑنے کا طریقہ کار بشمول بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا، بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں اور فلسطینیوں کی سرزمین پر جان بوجھ کر جان لیوا حالات مسلط کرنا نسل کشی کے مترادف ہے۔نیوز کے مطابق اسرائیلی طرز عمل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی نے کہا ہے کہ ’جنگ کے آغاز سے ہی اسرائیلی عہدیدار عوامی سطح پر ایسی پالیسیوں کی حمایت کرتے آئے ہیں جو فلسطینیوں کو زندگی گزارنے کے لیے ضروری اشیا، خوراک، پانی اور ایندھن سے محروم کرتی ہیں۔
خصوصی کمیٹی نے مزید کہا ہے کہ اسرائیلی حکام کے بیانات اور ’منظم اور غیرقانونی‘ طور پر انسانی امداد کو غزہ پہنچنے سے روکنا ’زندگی بچانے والی اشیا کو سیاسی اور عسکری فائدے کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کے اسرائیلی ارادوں کو واضح کرتا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں، مغربی کنارے بشمول غزہ کی پٹی اور یروشلم میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے کے لیے 1968 میں یہ کمیٹی بنائی تھی۔
تین رکن ممالک کے اقوام متحدہ کے لیے نمائندے اس کمیٹی کا حصہ ہوتے ہیں جن کے انتخاب کا اختیار جنرل اسمبلی کے صدر کے پاس ہے۔ فی الحال ملائیشیا، سینیگال اور سری لنکا کے نمائندے اس کمیٹی کے رکن ہیں۔
کمیٹی کی حالیہ رپورٹ میں اکتوبر 2023 سے جولائی 2024 کے عرصے کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں زیادہ توجہ فلسطینیوں کے حقوق پر دی گئی ہے جو غزہ میں جنگ سے متاثر ہوئے ہیں۔کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ ’وسیع پیمانے‘ پر اسرائیل کی بم برسانے کی مہم سے غزہ میں ضروری سروسز کا صفایا ہو گیا ہے اور اس سے ماحول کو تباہ کن نقصان پہنچا ہے جس کے صحت پر دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 کے اوائل تک دو ایٹمی بموں کے برابر 25,000 ٹن سے زیادہ دھماکہ خیز مواد غزہ پر گرایا گیا جس سے "بڑے پیمانے پر” تباہی ہوئی، پانی اور صفائی کا نظام درہم برہم ہو گیا، زراعت تباہ ہو کر رہ گئی اور ماحول میں زہریلی آلودگی پھیلی۔اس سے ایسے جان لیوا بحران پیدا ہوئے ہیں جو آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی شدید نقصان پہنچائے گا۔اقوام متحدہ کی کمیٹی نے تمام ریاستوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں بشمول مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں چلنے والے نسل پرستی کے نظام کو روکنے کے لیے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھائیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکام کو ان کے اعمال کا جوابدہ ٹھہرائیں۔
کمیٹی نے مزید کہا کہ ’بین الاقوامی قانون کی پاسداری اور خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہی کو یقینی بنانا مکمل طور پر رکن ممالک پر منحصر ہے۔اس میں ناکامی بین الاقوامی قانونی نظام کی بنیادوں کو کمزور کر دیتی ہے اور ایک خطرناک مثال قائم کرتی ہے، جس سے مظالم کو روکے بغیر ان کا ارتکاب ممکن ہو جاتا ہے۔کمیٹی باقاعدہ طور پر اپنی رپورٹ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79 ویں سیشن میں پیش کرے گی۔