اسرائیلی وزیر دفاع کی برطرفی "اختلاف اور عدم اعتماد”

377662-1958751673.jpg

اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اپنے مقبول وزیر دفاع یواو گیلنٹ کو عہدے سے برطرف کر دیا۔اس کے ردعمل میں ملک بھر میں مظاہرے ہوئے اور ایک عوامی اجتماع نے وسطی تل ابیب کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نتن یاہو اور گیلنٹ کے درمیان غزہ جارحیت کے حوالے سے متعدد بار اختلافات سامنے آئے لیکن اسرائیلی وزیراعظم نے انہیں بر طرف کرنے سے گریز کیا اور اس وقت یہ قدم اٹھایا جب دنیا کی توجہ امریکی صدارتی انتخابات پر مرکوز تھی۔نتن یاہو نے منگل کی شام اپنے اعلان میں ’اہم اختلافات‘ اور ’اعتماد کے بحران‘ کا حوالہ دیتے ہوئے گیلنٹ کی جگہ ایک دیرینہ وفادار کو تعینات کیا۔

نتن یاہو نے کہا کہ ’دوران جنگ وزیراعظم اور وزیر دفاع کے درمیان پہلے سے کہیں زیادہ اعتماد کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے اگرچہ مہم کے پہلے مہینوں میں اس طرح کا اعتماد تھا اور بہت نتیجہ خیز کام ہوا تھا، لیکن آخری مہینوں کے دوران میرے اور وزیر دفاع کے درمیان یہ اعتماد ٹوٹ گیا۔جارحیت کے ابتدائی دنوں میں، اسرائیل کی قیادت حماس کے سات اکتوبر ، 2023 کے حملے کے جواب میں متحد نظر آئی۔لیکن جیسے جیسے یہ جارحیت طویل ہوئی اور لبنان تک پھیل گئی، اہم پالیسی اختلافات سامنے آئے ہیں۔اگرچہ نتن یاہو نے حماس پر فوجی دباؤ جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن گیلنٹ نے زیادہ عملی نقطہ نظر اپناتے ہوئے کہا تھا کہ فوج نے کم از کم ایک عارضی سفارتی معاہدے کے لیے وہ ضروری حالات پیدا کیے ہیں جو حماس کے پاس موجود قیدیوں کو وطن واپس لا سکتے ہیں۔

رات گئے اسرائیلی ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک نیوز کانفرنس میں گیلنٹ نے کہا کہ وہ نتن یاہو سے تین اہم امور پر متفق نہیں ہیں: الٹرا آرتھوڈوکس افراد کے لیے فوجی مسودے سے متنازع استثنیٰ کو ختم کرنے کی ضرورت، قیدیوں کی واپسی کے لیے معاہدے کی فوری ضرورت اور سات اکتوبر کی سیاسی اور سکیورٹی ناکامیوں کی تحقیقات کے لیے ایک سرکاری کمیشن قائم کرنے کی ضرورت۔

حماس کے اس حملے میں اسرائیل میں 1200 افراد جان سے گئے اور 250 کو قیدی بنا لیا گیا۔اسرائیل کا اندازہ ہے کہ تقریباً 100 قیدی ابھی بھی قید میں ہیں، جن میں سے صرف 65 اب بھی زندہ ہیں۔گیلنٹ نے کہا کہ جب اسرائیل کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے تو زیادہ تر یہودیوں کے لیے فوجی خدمت لازمی ہونے کے ساتھ ساتھ الٹرا آرتھوڈوکس کی بھرتی کرنا انصاف اور سکیورٹی کا مسئلہ بھی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے ’جلد از جلد‘ معاہدے کی ضرورت ہے ’جب وہ زندہ ہیں‘ اور ان کو نظر انداز کرنے پر ’کوئی معافی‘ نہیں دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ سات اکتوبر کے واقعات کی مکمل تحقیقات ہی اس بات کو یقینی بنانے کا واحد طریقہ ہے کہ حکومت مناسب سبق سیکھے گی۔

نتن یاہو نے تحقیقات کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگ ختم ہونے کے بعد ہی ہونی چاہیے۔گیلنٹ نے آخر میں فوج میں خدمات انجام دینے والے فوجیوں اور جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کیا انہوں نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور پوڈیم سے دور جاتے ہوئے سیلوٹ مارا۔قیدیوں کے بہت سے اہل خانہ اور حکومت مخالف مظاہروں میں شامل ہونے والے ہزاروں افراد نے نتن یاہو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے ایک معاہدے میں خلل ڈال رہے ہیں۔نتن یاہو کے سخت گیر اتحادیوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے حماس کو رعایت دی تو وہ حکومت گرا دیں گے، جس سے ایسے وقت میں قبل از وقت انتخابات کا خطرہ بڑھ گیا ہے جب وزیر اعظم کی مقبولیت کم ہے۔اس ہفتے، حکام نے ایک نتن یاہو کے ایک معاون کی گرفتاری کا اعلان کیا، جن پر شبہ ہے کہ انہوں نے خفیہ معلومات غیر ملکی میڈیا کو لیک کیں، جس سے قیدیوں کے مذاکرات ناکام ہونے پر وزیراعظم کو سیاسی تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔

حزب اختلاف کے رہنما یائر لاپید نے ایکس پر کہا، ’جنگ کے بیچ میں گیلنٹ کو برطرف کرنا پاگل پن ہے۔نتن یاہو ایک شرمناک سیاسی بقا کے لیے اسرائیل کی سلامتی اور اسرائیلی فوج کے فوجی فروخت کر رہے ہیں۔اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ، جن کا اکثر رسمی عہدہ ملک کو متحد رکھنے میں مدد دینے کے لیے ہے، نے اس برطرفی کو وہ آخری چیز قرار دیا جس کی اسرائیل کو ضرورت ہے۔قیدیوں کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے نچلی سطح کے فورم کا کہنا ہے کہ ’گیلنٹ کو برطرف کرنا مغویوں کی رہائی کے معاہدے کو ناکام بنانے کی ’کوششوں‘ کا براہِ راست تسلسل ہے۔‘چند گھنٹوں کے اندر ہزاروں مظاہرین وسطی تل ابیب میں جمع ہو گئے، جس نے شہر کی مرکزی شاہراہ کو بند اور ٹریفک مفلوج کر دیا۔

مقبوضہ بیت المقدس اور شہر کے دیگر حصوں میں نتن یاہو کے گھر کے باہر ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا۔مظاہرین جمع ہوئے اور ملک بھر میں کئی دیگر مقامات پر سڑکیں بند کر دیں اور اسرائیلی ٹی وی سٹیشنوں نے مظاہرین کے ساتھ پولیس کی جھڑپوں کی تصاویر دکھائیں۔یہ برطرفی ایک نازک وقت میں کی گئی ہے۔ غزہ پر حملہ کرنے کے ایک سال بعد بھی اسرائیلی فوج وہاں پھنسی ہوئی ہے۔اس حملے میں 42 ہزار سے زائد فلسطینی جان گئے اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے جبکہ اسرائیلی زمینی فوج لبنان میں حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف ایک ماہ سے جاری زمینی حملے میں بھی مصروف ہے۔

لڑائی میں سینکڑوں اسرائیلی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔اسرائیل نے عراق، شام اور یمن میں عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ بھی جھڑپیں کی ہیں۔پیر کو، گیلنٹ نے اعلان کیا کہ اس نے نوجوان الٹرا آرتھوڈوکس مردوں کو ہزاروں ڈرافٹ نوٹس بھیجے ہیں۔ مذہبی مردوں کے لیے استثنیٰ کا نظام سیکولر اکثریت میں وسیع پیمانے پر ناراضگی کا سبب بنا ہے، اور اسرائیل کی سپریم کورٹ نے حکومت کو اس نظام کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔نتن یاہو، جن کا حکومتی اتحاد الٹرا آرتھوڈوکس پارٹیوں پر منحصر ہے، نے ابھی تک اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا ہے۔وائٹ ہاؤس نے منگل کو اس برطرفی پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا لیکن گیلنٹ کو ’اسرائیل کے دفاع سے متعلق تمام امور پر ایک اہم پارٹنر‘ قرار دیا۔وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل نے کہا کہ ’قریبی شراکت داروں کی حیثیت سے ہم اسرائیل کے اگلے وزیر دفاع کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔

اس سے قبل مارچ 2023 میں نتن یاہو کی جانب سے گیلنٹ کو برطرف کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کے بعد نتن یاہو کے خلاف سڑکوں پر بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔انہوں نے موسم گرما میں گیلنٹ کو برطرف کرنے کے خیال پر بھی زور دیا لیکن منگل کے اعلان تک اسے روک دیا۔نئے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز اس وقت وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور وہ طویل عرصے سے نتن یاہو کے وفادار اور تجربہ کار کابینہ وزیر ہیں۔کاٹز نے نتن یاہو کا شکریہ ادا کیا اور اسرائیل کے دشمنوں کے خلاف جنگوں میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو فتح دلانے کا عہد کیا۔69 سالہ کاٹز کئی دہائیوں قبل فوج میں جونیئر افسر تھے اور ان کے پاس فوجی تجربہ بہت کم ہے، حالانکہ وہ برسوں سے نتن یاہو کی سکیورٹی کابینہ کے اہم رکن رہے ہیں۔نتن یاہو کے سابق حریف گیدون سار، جو ستمبر میں حکومت میں دوبارہ شامل ہوئے تھے، خارجہ امور کا عہدہ سنبھالیں گے۔نتن یاہو کی اپنے حریفوں کو بے اثر کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔اپنے بیان میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے گیلنٹ کے ساتھ خلا کو پر کرنے کے لیے ’کئی کوششیں‘ کی ہیں، لیکن وہ ’بڑھتے چلے گئے۔انہوں نے کہا، ’ہمارے دشمنوں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے