خدیجہ شاہ اور جیل اصلاحات
گزشتہ ہفتے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے لاہور میں ایک میٹنگ کی سربراہی کی جس میں پنجاب بھر کی جیلوں میں اصلاحات لانے اور قیدیوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے غور و خوض کیا گیا۔چیف جسٹس کو حکام کی طرف سے جو بریفنگ دی گئی اس سے پنجاب کی جیلوں کے حالات کوئی اچھا منظر نامہ پیش نہیں کررہے۔ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد، صوبے کی جیلوں کی استعداد سے بہت زیادہ ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے قیدی ہیں جن کے مقدمات ابھی زیر سماعت ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ہائی لیول میٹنگ میں جیلوں کی حالت زار سے متعلق میڈیا میں بحث ہوتی اور توجہ کا مرکز یہ ہوتا کہ قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جانے چاہییں اور کس طرح جیلوں کی استعداد کار کو بڑھایا جائے اور کیسے زیرالتوا مقدمات کو کم کرکے جیلوں سے بوجھ کم کیا جائے لیکن اس کے بجائے ایک نان ایشو پر بحث کا رخ موڑ دیا گیا اور وہ نان ایشو ہے میٹنگ کے شرکا۔میٹنگ کی تصویر جب میڈیا سے ذریعے لوگوں تک پہنچی تو بحث کا موضوع خدیجہ شاہ کی موجودگی پر فوکس ہوگیا۔
اگر آپ کو خدیجہ شاہ کے پس منظر کا علم نہیں تو علم میں اضافے کے لیے بتاتے ہیں۔ خدیجہ شاہ سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کی نواسی اور سابق ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی معاشی ٹیم کے رکن اور پی ٹی آئی دور کے سابق مشیر خزانہ پنجاب سلمان شاہ کی بیٹی ہیں۔ لیکن ان کی وجہ شہرت ان کے والد یا نانا نہیں بلکہ انکی پی ٹی آئی کے ساتھ وابستگی اور 9 مئی کے حوالے سے مقدمات میں مبینہ طور پر ملوث ہونا ہے۔
وہ چند مہینے 9 مئی کے مقدمات کی وجہ سے جیل میں قید رہی ہیں اور اسی قید کی وجہ سے ان کے جیل میں گزرے وقت اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان کو جیل اصلاحاتی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔ان کی تصویر منظر عام پر آنے کے بعد سب سے پہلا سوال جو اٹھایا گیا وہ یہی تھا کہ ان کو اس کمیٹی میں شامل کس نے کیا؟ کیا حکومت پنجاب کی طرف سے ان کو اس اصلاحاتی کمیٹی کا حصہ بنایا گیا ہے یا عدلیہ کی طرف سے ان کا نام شامل کیا گیا ہے۔پنجاب حکومت کے ذرائع نے تو خیر اس کی تردید کی ہے کہ انہوں نے کمیٹی میں خدیجہ شاہ کو شامل نہیں کیا بلکہ یہ اقدامات عدلیہ کی طرف سے اٹھائے گئے ہیں۔ بہرحال خدیجہ شاہ کا خاندانی پس منظر دیکھتے ہوئے میرے لیے یہ حیرانی کا باعث نہیں ہے کہ ان کا نام کیوں شامل کیا گیا ہے اس کمیٹی میں۔
میرے لیے اس سے اہم سوال یہ ہے کہ بریفنگ میں شرکا کو جو بتایا گیا ہے کہ پنجاب کی جیلوں کی استعداد کار تو 66,625 قیدیوں کی ہے لیکن صوبے بھر کی جیلوں میں اس وقت 108,643 لوگ قید ہیں۔اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان میں سے 36,128 قیدی ایسے ہیں جن کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ایک سال سے زیادہ عرصے سے مقدمے کی سماعت کے منتظر ہیں اور یہ ہمارے نظام انصاف میں پائی جانے والی خامیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان کو جیلوں میں اصلاحات لانے سے پہلے عدالتی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان میں بہت بڑی تعداد قیدیوں کی ایسی ہے جو مقدمات کا فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے قید ہیں۔ اگر عدالتیں بروقت فیصلہ کرنا شروع ہوجائیں تو جیلوں پر پڑنے والا یہ بوجھ خود بخود کم ہوجائے گا۔ بوجھ تو کم ہوگا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ عام عوام کو بھی انصاف ملنا شروع ہوگا۔
عدالتی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اسلام آباد کو پاکستان کا دارالحکومت بنے ہوئے تقریباً نصف صدی گزر چکی ہے لیکن اس کے باوجود اس کی اپنی کوئی جیل نہیں ہے۔ اسلام آباد کی عدالتوں سے سزا پانے والے قیدیوں کو بھی راولپنڈی ڈویژن کی مختلف جیلوں میں رکھا جاتا ہے جو ظاہری بات ہے پنجاب کی ہی جیلوں پر ایک بوجھ ہے۔کتنی حکومتیں نہ جانے اس عرصے میں آئی اور گئی ہیں لیکن کسی نے بھی وفاقی دارالحکومت میں جیل بنانے کا نہیں سوچا۔ گوکہ اب اسلام آباد جیل کی تعمیر ہورہی ہے لیکن اتنا عرصہ آخر اس پر کام کیوں نہیں ہوا؟ حکام کو ان معاملات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک بات ہے جیل اصلاحات کی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جیل میں قیدیوں کی فلاح و بہبود کے بارے حکومتوں کو بالکل سوچنا چاہیے۔ تاہم ان اصلاحات کے بجائے اگر بحث کا رخ خدیجہ شاہ جیسے نان ایشو کی طرف موڑا جائے گا تو مقاصد کبھی حاصل نہیں ہوں گے۔جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ خدیجہ شاہ کی شمولیت کا مقصد جیلوں میں قید پی ٹی آئی کی لیڈر شپ اور ورکرز کو سہولیات فراہم کرنا ہے تو وہ تو پہلے ہی مل رہی ہیں۔ عمران خان کو دی جانے والی سہولیات جو سپریم کورٹ کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے ذریعے پبلک ہوئی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ اس لیے خدیجہ شاہ کو کمیٹی میں شامل کیوں کیا اس کے بجائے بحث یہ ہونی چاہیے کہ جیلوں میں بہتری کیسے لائی جاسکتی ہے جس سے قیدیوں کی اصلاح بھی ہو اور جرائم کی روک تھام بھی ہو۔