کیا امریکا، ایران اور لبنان کی حکومتیں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوپائے گا؟

0413493620973e1.jpg

امریکا کے پاس اتحادی ہیں جبکہ اس کے حریفوں کے پاس پراکسیز ہیں۔ امریکا کے اتحادیوں کے پاس حکومتیں ہیں جن کی حمایت کرنا اس کے لیے ضروری ہے جبکہ حریفوں کے پاس ایسی حکومتیں ہیں جنہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت مشترکہ طور پر کی جانے والی نسل کشی کے درمیان امریکا اور اسرائیل نے اپنی لامحدود دانشمندی کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ مشرقِ وسطیٰ کے منظرنامے کو تبدیل کرنے کا مناسب وقت ہے۔ ایک بار پھر!

غزہ کے حوالے سے ان کا منصوبہ تو کچھ عرصہ پہلے سے واضح ہوچکا ہے جس میں غزہ کی بقیہ آبادی کو خوراک سے محروم رکھنا ہے اور انہیں اس حد تک خوفزدہ کرنا ہے کہ وہ اپنا گھر چھوڑ دیں تاکہ یہودی بستیوں کا قیام عمل میں آئے اور اسرائیلی افواج کا مستقل طور پر انخلا ہو۔لبنان کے حوالے سے بھی ان کے حالیہ منصوبوں میں اسرائیل اور امریکا دونوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کے حالیہ حملے حزب اللہ کو کمزور کرنے اور لبنان کے سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرنے کا بہترین موقع ہیں۔ اور انہوں نے اپنا یہ مقصد پوشیدہ بھی نہیں رکھا۔

اکتوبر میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے معمول کے مطابق نسل کشی کی وضاحت دینے سے وقفہ لے کر رپورٹرز کو بتایا کہ امریکا ’لبنان کی حکومت اور اس کی عوام کو حزب اللہ کے اثرورسوخ سے نکالنا چاہتا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے امریکا نے خطے میں تعینات اپنے خصوصی ایلچی اور اسرائیل دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے ایک سابق فوجی اموس ہوکسٹین کو اسرائیل کے حملے کے باوجود لبنان میں فوری طور پر انتخابات کے انعقاد کے لیے دباؤ ڈالنے کا کام سونپا ہے۔

لبنانی حکام نے احتجاج کیا کہ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانا پڑے گا اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اسرائیل پارلیمنٹ پر حملہ نہیں کرے گا کیونکہ پارلیمنٹ میں حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کی نصف فیصد سے زائد نشستیں ہیں۔ کیا امریکا لبنانی پارلیمنٹ کے تحفظ کی گارنٹی دے گا؟ اموس ہوکسٹین نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔اطلاعات کے مطابق امریکا لبنانی فوج کے سربراہ جوزف عون پر صدر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ ایسا براہِ راست تعیناتی یا انتخابات کے ذریعے ہوسکتا ہے جس میں جنوبی لبنان میں اسرائیل کی جبری کارروائیوں اور نقل مکانی پر مجبور حزب اللہ اور مزاحمت کے حمایتی رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کردیا جائے گا۔ جنوبی لبنان حزب اللہ کا گڑھ مانا جاتا ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ لبنانی فوج نے اسرائیل کے حملے سے پہلے ہی میدان چھوڑ دیا تھا جس کے بعد حزب اللہ تن تنہا اسرائیل کا مقابلہ کررہی ہے۔لبنان میں حزب اللہ کے کچھ مخالفین اسے موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ دائیں بازو کی مسیحی جماعت کے رہنما سمیر جیجیا کا خیال ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا یہ مناسب وقت ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ تاہم اسرائیلی بمباری سے بڑے پیمانے پر تباہی اور اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں کے تناظر میں لگتا یہی ہے کہ سمیر جیجیا کی اپنی برادری میں ہی بہت کم لوگ اس خیال کے حق میں ہیں۔چیلنجز کے باوجود لبنان میں امریکی سفیر لیسا جانسن حزب اللہ کو لبنان کے سیاسی منظرنامے سے ختم کرنے کے ایجنڈا میں مصروف ہیں تاکہ اسرائیل کو اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے۔ لبنانی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ وہ لبنانی سیاستدانوں سے کہتی ہیں کہ ’اسرائیل جنگ کے ذریعے سب کچھ حاصل نہیں کرسکتا، آپ کے لیے یہ مناسب وقت ہے کہ آپ اپنا کردار ادا کریں اور ’اب بس بہت ہوگیا‘ کہہ کر اندرونی طور پر بغاوت کریں۔

لبنان میں امریکی سفیر نے اپنے بیان میں لبنانی سیاستدانوں کو حزب اللہ سے ’خوفزدہ‘ قرار دیا اور کہا کہ ’حزب اللہ کو شکست ہوچکی، اس کی قیادت تباہ ہوچکی ہے، ہم آپ کے ساتھ ہیں اور پوری آزاد دنیا آپ کے ساتھ کھڑی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ عرب ممالک اس تحریک کی حمایت کریں گے۔دوسری جانب ایران ہے جس کی حکومت 1979ء کے بعد سے یکے بعد دیگرے آنے والی امریکی حکومتوں کے نشانے پر رہی ہے۔ لیکن رجیم تبدیل کرنے کی گزشتہ تمام کوششیں ناکام رہی ہیں لیکن انہیں امید ہے بالخصوص امریکی پالیسی سازوں اور تھنک ٹینکس کے نیم سائیکو پاتھس کو لگتا ہے کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔

جب سوال یہ آتا ہے کہ موجودہ رجیم کے بعد ایران میں کس کی حکومت ہوگی تو ایک جانا پہنچانا نام تخت سنبھالنے کے لیے منظرعام پر آچکا ہے۔ معزول شاہ ایران، رضا شاہ پہلوی کے بڑے بیٹے رضا پہلوی خود کو ایران کے لیے بہترین حکمران قرار دے رہے ہیں جبکہ وہ خطے میں امریکا اور اسرائیل کے قریبی اتحادی بن سکتے ہیں۔تاہم انہیں بادشاہت کی حمایت کرنے والے بیرونِ ملک مقیم ایرانی شہریوں کی اہمیت حاصل ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان جیسے نفسیاتی لوگ آپ نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھے ہوں گے۔ ایرانی حکومت کی نفرت میں ان میں سے کچھ لوگ تو صہیونیت کی آواز بنے ہوئے ہیں۔ اپنے پرنس چارمنگ کو تخت کے ایک ایک قدم قریب لانے کے لیے وہ اپنے ہی ایرانی ہم وطنوں کے بڑے پیمانے پر قتل و عام کا مطالبہ کرنے کی حد تک جارہے ہیں۔

اس کی یہ مثال ملاحظہ کریں۔ صحافی بابک اسحاقی جو ایران میں بادشاہت کی حمایت کرنے والے فارسی نیوز آؤٹ لیٹ سے منسلک ہیں اور وہ غزہ میں اسرائیلی فوج کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ مناظر عکس بند کرتے ہوئے، انہوں نے غزہ میں ایک تباہ شدہ گھر کی دیوار پر مارکر سے 2022ء کے ایرانی مظاہروں کے دوران ابھرنے والا نعرہ ’زن، زندگی، آزادی‘ تحریر کیا۔تو یہ آج کے دور کے احمد شلابی ہیں، نسل کشی کو تماشے کی طرح دیکھنے والے یہ درباری اپنے مفادات کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔

 

تحریر :- ضرار کھوڑو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے