66b51b8814464_328.jpg

جب ہم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں اور ماضی کا حال سے موازنہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ انسان دشمن منحرف یہودیوں کی نفسیات اور اقدامات تقریباً ایک جیسے رہے ہیں اور آج بھی صیہونزم نامی ٹولہ اپنے اجداد جیسی خصوصیات کا حامل ہے۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے مختلف قسم کے دشمن موجود تھے لیکن ان سب میں یہودیوں کی عادات بالکل مختلف تھیں۔ وہ دیگر قوموں کے برعکس شہروں کی بجائے قلعوں میں زندگی بسر کرتے تھے اور انہی قلعوں کے اندر رہتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آئے دن شیطانی سازشیں کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ عصر اسلام میں یہودیوں کے ساتھ تین غزوات انجام پائے جو بنی نضیر، بنی قریظہ اور بنی قینقاع کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان غزوات میں بھی مسلمانوں نے یہودیوں کے قلعوں کا گھیراو کیا اور انہیں فتح کیا۔

قرآن کریم میں سورہ حشر میں یہودیوں کی اس خصوصیت کا ذکر ملتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
لَا یُقَاتِلُونَکُمْ جَمِیعًا إِلَّا فِی قُرًى مُحَصَّنَةٍ أَوْ مِنْ وَرَاءِ جُدُرٍ بَأْسُهُمْ بَیْنَهُمْ شَدِیدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِیعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ
ذَٰلِکَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا یَعْقِلُونَ
ترجمہ: وہ ہر گز تمہارے ساتھ ایک گروہ کی صورت میں جنگ نہیں کریں گے مگر مضبوط قلعوں میں اور اونچی دیواروں کے پیچھے سے۔ ان کے باہمی اختلافات بھی شدید ہیں، تم انہیں متحد تصور کرو گے لیکن ان کے دل ایکدوسرے سے دور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بے عقل قوم ہے

آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ غاصب صیہونی رژیم نے مختلف اسلامی سرزمینوں پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور خود کو جدید ترین فوجی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک محفوظ قلعے میں بند کر رکھا ہے۔ وہ فضائی دفاعی نظاموں کے ذریعے اپنے اس قلعے کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے درپے ہے۔حال ہی میں جب اسرائیل نے اسلامی جمہوریہ ایران پر بزدلانہ حملہ کیا تو غاصب صیہونی حکمران زمین کے نیچے پناہ گاہوں میں چھپے بیٹھے تھے اور وہیں سے ایران کے خلاف حملوں کی کمان کرنے میں مصروف تھے۔ منحرف یہودیوں کی ایک اور خصوصیت ان کا دہشت گرد ہونا ہے۔ یہی غزوہ بنی نضیر جس کا ذکر قرآن کریم کی سورہ حشر میں آیا ہے، اس لیے شروع ہوئی کہ بنی نضیر قلعے میں بیٹھے یہودیوں نے پیغمبر اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش کی تھی۔ یہ مذموم سازش ایسے وقت انجام پائی جب بنی نضیر اور مسلمانوں کے درمیان امن معاہدہ بھی طے پا چکا تھا۔

حتی غزہ بنی نضیر کے دوران بھی اس قلعے کے چند یہودیوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ٹارگٹ کلنگ کی کوشش کی جو امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی شجاعت اور دلیری کے باعث ناکام ہو گئی اور یہودی دہشت گرد واصل جہنم ہو گئے۔ اس طرز عمل کا مشاہدہ ہم آج بھی غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے جاری ریاستی دہشت گردی کی صورت میں کر رہے ہیں۔ غاصب صیہونی حکمران بھی خود کو خیالی اور ناکارہ فضائی دفاعی نظام کی اوٹ میں چھپائے بیٹھے ہیں اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی اہم اور مرکزی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کر کے ریاستی دہشت گردی میں مصروف ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں سے اس دیرینہ دشمنی کی اصل وجوہات بھی قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے:

لَأَنتُم أَشَدُّ رَهبَة فِی صُدُورِهِم مِّنَ ٱللَّه ذَٰلِکَ بِأَنَّهُم قَوم لَّا یَفقَهُونَ
ترجمہ: (اے مسلمانو) تمہاری ہیبت ان کے دل میں خدا سے بھی بڑھ کر ہے، یہ اس لیے کہ وہ بے وقوف قوم ہے
صیہونی اس خدا سے خوف زدہ نہیں ہوتے جو پوری کائنات کا خالق و مالک ہے لیکن اپنے دشمنوں،یعنی حقیقی مومنین سے شدید خوف و ہراس میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہیں سے ان کی بے وقوفی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ خوف اسرائیل کے حالیہ حملے میں عیاں تھا۔ اسرائیل کا حملہ ایسے ہی تھا جیسے ایک خوف زدہ بچہ کسی قوی ہیکل مرد پر وار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ صیہونی حکمرانوں کی پوری کوشش تھی کہ حملہ ایسا ہو جو اسلامی جمہوریہ ایران کو بہت زیادہ طیش نہ دلائے اور ایران کی جانب سے منہ توڑ جواب نہ ملنے کا امکان باقی رہ جائے۔ جیسا کہ قرآن کریم نے یہودیوں کے طرز عمل کی وضاحت کی ہے اور جس طرح ایران کے فضائی دفاعی نظام نے اسرائیلی حملے کا موثر انداز میں مقابلہ کیا ہے، وہ خوف جو خداوند متعال نے بنی نضیر کے دل میں پیدا کیا تھا اس وقت بنجمن نیتن یاہو اور اس کی کابینہ کے دل میں پیدا کر دیا ہے۔ وہی خوف جو حیدر کرار کی ذوالفقار کے وار سے یہودیوں کے دل میں طاری ہوا تھا اور بنی نضیر والوں نے سمجھ لیا تھا کہ جنگ کی صورت میں ان کا مقابلہ ذوالفقار حیدری سے ہو گا، آج غاصب صیہونی رژیم کے دل میں طاری ہو چکا ہے اور وہ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ بہت جلد ان کا قلعہ خاک میں ملا دیا جائے گا اور انہیں وہاں سے بھاگ جانے پر مجبور ہو جانا پڑے گا۔ قرآن کریم فرماتا ہے:
مَا قَطَعتُم مِّن لِّینَةٍ أَو تَرَکتُمُوهَا قَآئِمَةً عَلَىٰٓ أُصُولِهَا فَبِإِذنِ ٱللَّهِ وَلِیُخزِیَ ٱلفَٰسِقِینَ

ترجمہ: (اے مومنین) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا،
وہ خدا کے حکم سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ وہ نافرمانوں کو رسوا کر دے

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے