امریکی انتخابات میں عرب ووٹرز کا کردار

9602c4d0-839e-11ef-ad45-893aa022fcbc.jpg

امریکا میں اس وقت صدارتی انتخابات کی گہما گہمی عروج پر ہے ،جن میں ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار کمالا ہیرس کے درمیان سخت کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔اگر ہم امریکی الیکشن کے حوالے سے کیے جانے والے مختلف انتخابی پولز کی بات کریں تو کچھ پولز میں کمالا ہیرس کو برتری حاصل تو کچھ میں ٹرمپ بازی لے جاتے ہیں۔امریکی ریاستوں میں کچھ ریاستیں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتی ہیں،جن میں ریاست ٹیکساس، جارجیا، کیلی فورنیا،اور ریاست مشی گن شامل ہے، مگر ان انتخابات میں ریاست مشی گن کے عرب ووٹرزانتخابی نتائج کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق مشی گن میں عرب نژاد امریکی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو مشرق وسطیٰ کی جنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرسکتے ہے۔

رپورٹ کے مطابق ریاست مشی گن میں کل ووٹرز کی تعداد 60 لاکھ کے قریب ہے جن میں تقریباً تین لاکھ عرب ووٹرز شامل ہیں۔بظاہر دیکھنے میں تو یہ تعداد اتنی بڑی نہیں لگتی لیکن پچھلے دو الیکشنز کے نتائج پر غور کریں تو یہاں چند ہزار ووٹ بھی کسی امیدوار کے مقدر کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔اس الیکشن میں 3 لاکھ عرب ووٹرز کملا ہیرس یا ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے امکان کو واضح کر سکتے ہیں۔واضح رہے کہ حال ہی میں ریاست مشی گن میں مختلف مسالک کے علما اور مسجد کے پیش اماموں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا تھا، جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلم کمیونٹی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد دنیا میں امن کے قیام اور غزہ اسرائیل جنگ بندی کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔

خیال رہے کہ 2016کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مشی گن میں دس ہزار ووٹوں کے فرق سے ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی جبکہ دو ہزار بیس میں موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے تقریباً ایک لاکھ ووٹ کے فرق سے ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دی تھی۔امریکی انتخابی نظام یا الیکٹورل سسٹم مجموعی ووٹوں کی تعداد کی بجائے الیکٹورل سسٹم پر منحصر ہے جس میں کل 528ووٹ ہیں جنھیں تمام ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے بانٹا گیا ہے۔ریاست مشی گن کے الیکٹورل کالج میں پندرہ ووٹ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔