صہیونزم اور دہشت گردی، ایک تاریخی جائزہ (حصہ دوم)

images-2.jpeg

مسلح گروہوں کی تشکیل میں صیہونیوں کا پہلا قدم

فلسطین نقل مکانی کرنے والے یہودیوں کے نسلی اور مذہبی تعصبات اور مقامی فلسطینی شہریوں کا ان متعصب افراد سے مقابلہ ان کے درمیان دشمنی کے پیدا ہونے کا سبب بن گیا۔ یہی چیز اس بات کا باعث بنی کہ یہودی مہاجر فلسطین میں آتے ہی اپنے دفاع کی خاطر مسلح گروہ بنانے کے بارے میں سوچنے لگیں۔ یہ گروہ بنانے کا ایک اور مقصد اردگرد کے علاقوں پر حملہ کرنا اور اپنی سرزمین کو وسعت بخشنا تھا۔ یاد رہے کہ اس وقت فلسطین کی سرزمین برطانیہ کے زیر اثر تھی۔ مسلح گروہ تشکیل دینے کی خواہش، وایزمین کی طرف سے اسرائیلی ریاست بنانے کا اعلان اور سیاسی صیہونیسم کی تشکیل وہ عوامل تھے جنہوں نے یہودیوں کو برطانیہ کے ہاتھ میں ایک آلہ کار کے طور پر تبدیل کر دیا اور برطانیہ انہیں اپنے استعماری اہداف کے حصول کی خاطر استعمال کرنا شروع ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہوا چاہتی تھی۔ یہ جنگ برطانیہ کیلئے کافی پریشان کن تھی۔ برطانیہ چاہتا تھا کہ امریکہ کو بھی اس جنگ میں شامل کرے تاکہ دشمن کے خلاف ایک اور محاذ کھولا جا سکے۔

یہودیوں نے یہ موقع غنیمت جانا اور برطانیہ سے اس بات پر مذاکرات کئے کہ اگر وہ انہیں فلسطین میں ایک آزاد ریاست بنانے کا وعدہ دے تو وہ اپنا اثر و نفوذ استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو بھی جنگ میں شامل ہونے پر رضامند کر لیں گے۔ گویا کہ یہ مذاکرات کامیاب رہے اور امریکہ میں مقیم یہودیوں نے اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ اسی دوران جنگ میں برطانیہ کی مدد کیلئے یہودیوں کا ایک مسلح گروہ جیوش لژیون (jewish legion) معرض وجود میں آیا جس کے ممبران جنگ کے بہانے فلسطین میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ پہلی جنگ عظیم کے آخر میں اس گروہ میں شامل افراد کی تعداد تقریباً 11000 تک پہنچ چکی تھی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اس گروہ کے افراد ولادیمیر جابوٹینسکی (Vladimir jabotinsky) کی قیادت میں فسطین آ گئے۔

اس طرح سے فلسطین میں موجود صیہونیست بہت زیادہ طاقتور ہو گئے۔ ان مسلح افراد کی سرگرمیاں مقامی افراد کی طرف سے شدید اعتراض کا سبب بنیں۔ حتی فلسطین کے اندر اور باہر موجود مذہبی یہودیوں نے بھی ان سرگرمیوں پر شدید اعتراض کیا۔ مخالف یہودیوں کا تعلق ارتھوڈوکس فرقے سے تھا جنکے عقیدے میں یہودی ریاست کے قیام کی کوشش مذہبی اعتبار سے ممنوع تھی اور خدا کے ساتھ شرک کرنے کے مترادف تھی۔ ان کی نظر میں اسرائیلی ریاست کے قیام صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ایسی سوچ رکھنے والے یہودیوں کا معروف ترین گروہ "نٹوریکاٹا” تھا۔ سیاسی صیہونزم برطانیہ کی مدد سے فلسطین میں یہودی کالونیاں بنانے اور انکی حفاظت کیلئے مسلح افراد مہیا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جیوش ایجنسی برطانیہ کی طرف سے رسمی طور پر فلسطین میں یہودیوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر پیش کر دی گئی جو فسطین میں مقامی افراد کی حاکمیت کو ختم کرنے میں پہلا قدم ثابت ہوئی۔

صیہونیستی دہشت گرد گروہوں کی تشکیل

برطانیہ بیت المقدس پر قبضہ کرنے اور اس بات کا یقین کر لینے کے بعد کہ اب خلافت عثمانی میں اس سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رہی، وہاں پر ایک آزاد اور خودمختار یہودی ریاست قائم کرنے کے اپنے فیصلے کے بارے میں شک و تردید کا شکار ہو گیا۔ لہذا برطانیہ نے جیوش لژیون کے مزید اعضاء کو فلسطین آنے سے روک دیا اور اکتوبر 1919 میں اس مسلح گروہ کے سربراہ ولادیمیر جابوٹینسکی کو بھی 30 ماہ تک برطانوی فوج میں ملازمت کرنے کے بعد اپنے عہدے سے برکنار کر دیا۔ اس طرح سے یہ مسلح گروہ رسمی طور پر ختم ہو گیا۔ لیکن جابوٹینسکی نے مقامی عرب باشندوں کے مقابلے میں یہودی مہاجرین کی حفاظت کے سلسلے میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ لہذا فلسطین میں مختلف قسم کے مسلح صہیونیست گروہ معرض وجود میں آنا شروع ہو گئے۔ ہم ان مسلح گروہوں پر ایک مختصر نظر ڈالیں گے اور ساتھ ہی وہ عمدہ دہشت گردانہ کاروائیاں بھی ذکر کریں گے جو ان گروہوں نے انجام دیں۔

1۔ ھاگانا آرگنائزیشن

دسمبر 1919 میں جابوٹینسکی نے فلسطین کے کچھ مہاجر یہودیوں کو متقاعد کیا کہ یہودیوں کے دفاع کیلئے "ھاگانا” نامی ایک تنظیم بنائی جائے۔ یہ مسلح گروہ در واقع جیوش ایجنسی کی فوج کی حیثیت رکھتا تھا۔ جیوش ایجنسی ابتدا سے ہی اس کوشش میں تھی کہ ھاگانا آرگنائزیشن کو فلسطین کی سیکورٹی فورسز کے طور پر متعارف کروائے۔ اسی مقصد کیلئے جابوٹینسکی نے برطانوی جنرل رونلڈ ریسٹورس سے مذاکرات کئے اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ ھاگانا آرگنائزیشن کے افراد کو بیت المقدس کی پولیس کے طور پر بھرتی کرے۔ جیوش ایجنسی نے ھاگانا آرگنائزیشن کو مختلف مواقع پر کبھی برطانیہ کے حق میں اور کبھی اسکے خلاف استعمال کیا۔

ھاگانا کے دہشت گردانہ اقدامات

جولائی 1933: حیسیم آرلوسوروف کا قتل،
17 جولائی 1937: فلسطین
سیاسی صیہونزم انیسویں صدی میں مختلف وجوہات کی بنا پر معرض وجود میں آیا۔ ان میں سے ایک وجہ یہودی ستیزی کی بحث ہے جو 1880 کی دہائی کے شروع میں "یوگرومز” کی شکل میں روس میں ظاہر ہوئی۔
میں تین عرب باشندوں کا قتل،

25 نومبر 1940: پیٹریا بحری جہاز میں دھماکہ جس میں فلسطین آنے والے یہودی مہاجر سوار تھے۔ 140 مہاجر ہلاک ہو گئے،

24 فروری 1942: استقروما بحری جہاز میں دھماکہ جس میں 769 یہودی مہاجر سوار تھے۔ سب اس حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ جیوش ایجنسی نے اسکو یہودی مہاجرین کی طرف سے اعتراض کے طور پر خودکشی کا واقعہ قرار دیا،

20 فروری 1947: حیفا کے نزدیک عراق کی آئل پائپ لائن میں دھماکہ۔ اس دہشت گردانہ اقدام میں موشہ دایان بھی شریک تھا،

19 دسمبر 1947: صفر کے نزدیک ایک عرب دیہات میں دو گھروں کو مسمار کرنا جس میں 10 افراد جن میں سے 5 بچے تھے جاں بحق ہو گئے،

20 دسمبر 1947: قزازہ کے دیہات پر حملہ اور گھروں کو دھماکے سے اڑا دینا۔

2۔ بیتار گروپ

اس گروپ کا نام اپنے بانی برٹ یوسف ٹرومیلڈر کے نام سے لیا گیا ہے۔ یہ شخص 1920 میں جلیلیہ کیمپ کے فلسطینی مہاجرین کے ساتھ ایک لڑائی میں ہلاک ہو گیا تھا۔ اس گروپ میں شامل شدت پسند یہودی جوان "براون شرٹ گروپ” کے نام سے مشہور تھے۔ اس گروپ کے افراد ھاگانا آرگنائزیشن سے نکل کر آئے تھے۔ جابوٹینسکی نے بھی اس گروپ کی سربراہی کی تھی۔

3۔ ارگون زیائی لیومی گروپ

یہ شدت پسند گروہ 1930 کی دہائی کے اواسط میں ھاگانا سے الگ ہونے والے افراد نے تشکیل دیا اور 1940 کی دہائی میں مناخیم بگن کی سرکردگی میں سرگرم عمل رہا۔ مناخیم بگن نے اپنی ڈائری میں اس گروپ کی تشکیل، تنظِم اور دہشت گردانہ کاروائیوں کی مکمل تفصیل لکھی ہے۔ اس نے اس گروہ کی تشکیل کے بارے میں لکھا ہے: "ہم نے ایک فوج تشکیل دی اور اسکا نام ارگون رکھا اور اس میں مختلف سیکشنز کو تشکیل دیا جن میں کمانڈوز کا سیکشن، انقلابی سیکشن اور پروپیگنڈہ سیکشن شامل تھے”۔ اسکے بعد وہ اس گروپ کے تنظیمی ڈھانچے اور اسکے طرز کار کی وضاحت کرتا ہے۔ وہ ارگون کے اندرونی سیسٹم کے بارے میں کہتا ہے: "ہمارا اندرونی سیسٹم دو بنیادوں پر استوار تھا؛ پہلی اطاعت اور دوسری مخفی کاری۔ ارگون اپنے اس اندرونی سیسٹم اور کامیاب دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے بہت جلد ایک خوفناک صیہونیستی دہشت گرد تنظیم میں تبدیل ہو گئی حتی کہ بیگن یہ اعتراف کرتا ہے کہ: "ہر جگہ اس تنظیم کے نام کا خوف اور دہشت طاری تھی۔ ایسی دہشت جو صرف کہانیوں میں ملتی ہے۔ اس رعب و وحشت نے ہماری کامیابیوں میں بہت اہم کردار ادا کیا جو اسکے بغیر ممکن نہ تھیں”۔ ارگون کی کامیابیاں باعث بنیں کہ 1940ء کی دہائی میں یہود ایجنسی ارگون کے رہنماوں کے ساتھ ایک معاہدہ طے کرے جسکے مطابق دونوں کے درمیان دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دینے میں تعاون اور ہمکاری برقرار ہو گیا۔

ارگون گروپ کے دہشت گردانہ اقدامات

اس گروپ کی دہشت گردانہ کاروائیوں کی لسٹ درج ذیل ہے:

2 جولائی 1939ء: بیت المقدس کی فروٹ مارکیٹ میں بم دھماکہ،

12 اور 26 فروری 1944ء: بیت المقدس کی فروٹ مارکیٹ میں بم دھماکہ،

25 فروری 1944ء: دو برطانوی پولیس اہلکاروں کا قتل،

8 اکتوبر 1944ء: برطانوی ہائی کمیشن کے قتل کی کوشش اور سر ہارولڈ مک میچل کا قتل،

27 ستمبر 1944ء: چار پولیس چوکیوں پر حملہ اور کئی پولیس اہلکاروں اور عام افراد کا قتل،

مارچ اور مئی 1945ء: مختلف جگہوں پر بم دھماکے اور کئی پولیس اہلکاروں اور عام افراد کا قتل،

13 ستمبر 1946ء: تل ابیب اور حیفا میں عثمانی بینکوں پر حملہ،

1 اکتوبر 1946: روم میں برطانوی سفارتخانے میں بم دھماکہ،

13 مارچ 1947ء: بیت المقدس میں برطانوی فوجی مرکز میں بم دھماکہ،

19 جولائی 1947ء: حیفا میں ایک برطانوی پولیس اہلکار کا قتل اور دوسرے کو زخمی کرنا،

16 دسمبر 1947ء: ڈیلی ٹائمز کو بھیجے گئے ایک خط کے ذریعے برطانوی عہدے داروں کو دھمکی،

1 مارچ 1948ء: فلسطین کو تقسیم کرنے کے اقوام متحدہ کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے 254 فلسطینی دیہاتیوں کا قتل عام۔

4۔ اشٹرن گروپ

یہ گروپ 1930 کے عشرے کے آخر میں ارگون سے الگ ہوا۔ اس گروپ کے سربراہ کا نام ابراہم اشٹرن تھا جو برطانیہ کا شدید مخالف اور نسل پرستانہ، نازی اور فاشیستی سوچ کا مالک تھا۔ اشٹرن 1939ء میں جرمنی کے خلاف برطانیہ کی مدد کیلئے صیہونیوں کے بھیجے جانے پر احتجاج کے طور پر ارگون سے علیحدہ ہو گیا اور "اشٹرن” کے نام سے اپنے نئے دہشت گرد گروپ کی بنیاد ڈالی۔ وہ موسولینی کے قریبی دوستوں میں سے تھا۔ اس نے اپنے گروپ میں شامل جنگجووں کو برطانیہ اور عربوں کے خلاف فلسطین میں منظم کیا۔ اشٹرن نے اپنے نسل پرستانہ عقائد اور نازیزم اور فاشیزم کے ساتھ دلبستگی کی بدولت یہ عہد کیا تھا کہ فلسطین میں صیہونیستی حکومت کی تشکیل میں اٹلی اور جرمنی کی حمایت کے بدلے یہ حکومت جرمنی کے ساتھ وفادار رہے گی اور فلسطین میں یہودیوں کے مقدس مقامات واٹیکن کے ساتھ وابستہ رہیں گے۔ یہود ایجنسی کے مقابلے میں اشٹرن کا موقف بظاہر ایک تضاد تھا لیکن درحقیقت عالمی صیہونزم کے اہداف کے مطابق تھا۔ اس گروپ کی دہشت گردانہ کاروائیاں اس قدر وسیع تھیں کہ برطانیہ کے جاسوسی ادارے M15 کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے: "اس ادارے کی طرف سے انجام دی گئی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ دو گروپ اشٹرن اور ارگون تقریبا 100 دہشت گردانہ کاروائیوں میں شریک رہے ہیں، جسکی بنیاد پر انکے کچھ ممبران کو سزائے موت جبکہ دوسروں کو عمر قید سنائی گئی ہے”۔

اشٹرن گروپ کی دہشت گردانہ کاروائیاں

یہ گروہ اپنی نازی اور فاشیستی سوچ کی وجہ سے اپنے مقاصد کو دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ تمام دہشت گردانہ اقدامات سیاسی صیہونزم کے اہداف کے مطابق تھیں۔ ذیل میں کچھ دہشت گردانہ کاروائیوں کی لسٹ دی جا رہی ہے:

جنوری 1942ء: 2 برطانوی فوجی افسروں کی ملاقات کی جگہ پر بم دھماکہ،

22 اپریل 1942ء: ایک پولیس افسر اور اسکے ساتھیوں پر ناکام قاتلانہ حملہ،

6 نومبر 1944ء: جنگ کے دوران برطانوی سفیر لارڈ موین کا قتل،

25 اپریل 1946ء: فوجی بیرکس میں 9 برطانوی فوجیوں کا قتل،

4 جنوری 1948ء: یافا کے ایک چوک میں بم دھماکہ جو 30 عام شہریوں کے قتل اور 98 کے زخمی ہونے کا باعث بنا،

3 مارچ 1948ء: حیفا میں ایک فوجی گاڑی کا سامنے بم دھماکہ،

31 مارچ 1948ء: قاہرہ سے حیفا جانے والی ٹرین کی پٹڑی کو مائن سے اڑانا جس کی وجہ سے 40 عرب باشندے قتل اور 60 زخمی ہو گئے،

17 ستمبر 1948ء: مسئلہ فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کے ایلچی کنٹ فولک برناڈٹ اور اسکے ایک ساتھی کا قتل۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے