صیہونی فوج میں بغاوت

photo_2024-09-14_12-58-07.jpg

اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم میں اس وقت بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں انتہاپسند کابینہ حکمفرما ہے۔ نیتن یاہو اور اس کے انتہاپسند وزیر غزہ جنگ جاری رکھنے پر مصر ہیں جبکہ ان کے پاس اس جنگ کے بعد کیلئے کوئی جامع حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی فوج میں ان کے خلاف باغیانہ رویے روز بروز شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اب تک صیہونی فوج اور سیکورٹی اداروں کے کئی اعلی سطحی عہدیدار استعفی پیش کر چکے ہیں۔ ان میں صیہونی ملٹری انٹیلی جنس کی ایک اہم ترین یونٹ یعنی یونٹ 8200 کا چیف کمانڈر اور مغربی کنارے میں صیہونی پولیس کا سربراہ بھی شامل ہیں۔ ان استعفوں نے موجودہ صیہونی کابینہ کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ایک طرف صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو اور اس کے انتہاپسند وزیروں نے غزہ میں حماس کے خلاف جنگ میں صیہونی فوج پر بھروسہ کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف خود فوج بحرانی صورتحال کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔

صیہونی حکمرانوں کی جانب سے جاہ طلب منصوبے پیش کئے جانے کے نتیجے میں سیکورٹی فورسز میں اختلافات رونما ہونے لگے ہیں جبکہ اعلی سطحی افسران فوج چھوڑ کا جانا شروع ہو گئے ہیں۔ جیسے جیسے غزہ جنگ طول پکڑتی جا رہی ہے اسی طرح غاصب صیہونی رژیم نت نئے بحرانوں سے روبرو ہو رہی ہے۔ انہی بحرانوں میں سے ایک صیہونی فوج اور سیکورٹی اداروں کو درپیش افرادی قوت کی قلت پر مبنی بحران ہے۔ عبری ذرائع ابلاغ کے بقول صیہونی فوج اس وقت افرادی قوت کی شدید قلت کا شکار ہو چکی ہے جس کے باعث صیہونی حکمرانوں نے حریدی یہودیوں پر بھی فوج میں نوکری لازمی قرار دینے کا نیا قانون وضع کر دیا ہے۔ اس قانون کے خلاف حریدی یہودی شدید احتجاج میں مصروف ہیں جبکہ بڑے بڑے حریدی یہودی علماء نے دھمکی دی ہے کہ اگر یہ قانون واپس نہ لیا گیا تو وہ مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر چلے جائیں گے۔

المیادین نیوز چینل کے مطابق اس وقت 1 ہزار سے زیادہ فوجی افسران نے استعفے دے کر صیہونی فوج ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ صیہونی فوج شدید اندرونی اختلافات اور انتشار کے خوف سے ان افسروں کے استعفے کی خبریں سینسر کر رہی ہے اور اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اب تک صیہونی فوج کے کئی اعلی سطحی عہدیدار اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ صیہونی فوج افرادی قوت کی شدید قلت کا شکار ہے۔ اسی افرادی قلت کے نتیجے میں صیہونی فوج نے بڑی تعداد میں ریزرو فورس کو حاضر ہونے کا حکم بھی دے دیا ہے اور انہیں غزہ جنگ میں شرکت کے احکامات بھی جاری ہو چکے ہیں۔ صیہونی فوجی افسروں کے علاوہ فوجی کمانڈرز نے بھی نیتن یاہو اور اس کی کابینہ سے تعاون کرنا بند کر دیا ہے۔

صیہونی ملٹری انٹیلی جنس کی یونٹ 8200 کے سربراہ یوسی شیریئل نے گذشتہ ہفتے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوت اس بارے میں لکھتا ہے: "یونٹ 8200 کے کمانڈر یوسی شیریئل نے اپنا استعفی چیف آف آرمی اسٹاف ہرتزے گیلیوے کو پیش کر دیا ہے۔ ملٹری انٹیلی جنس کی یونٹ 8200 کے سربراہ نے اپنے استعفی نامہ میں کہا ہے کہ اس کے مستعفی ہونے کی وجہ 7 اکتوبر (طوفان الاقصی) اور اس کے بعد پیش آنے والی انٹیلی جنس ناکامیاں ہیں۔” یاد رہے صیہونی ملٹری انٹیلی جنس کی یونٹ 8200 بیرون ملک انٹیلی جنس سرگرمیوں میں اہم اور بنیادی کردار کی حامل ہے۔ اسی طرح مقبوضہ فلسطین کے شمال اور جنوب میں واقع فوجی مراکز اور اڈے بھی اسی یونٹ کے زیر کنٹرول ہوتے ہیں۔ اس یونٹ کا کام معلومات اکٹھی کرنا، ان کا تجزیہ و تحلیل کرنا اور مستقبل کیلئے مناسب منصوبے پیش کرنا ہے۔

دوسری طرف مغربی کنارے میں صیہونی پولیس کے سربراہ عوزی لیوی نے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ صیہونی ٹی وی چینل 12 نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ عوزی لیوی گذشتہ ایک ماہ کے دوران مستعفی ہونے والے تیسرے سیکورٹی عہدیدار ہیں۔ صیہونی فوج اور سیکورٹی اداروں میں استعفوں کا سلسلہ یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ عبری ذرائع ابلاغ کے بقول صیہونی چیف آف آرمی اسٹاف ہرتزے گیلوے کا بھی دسمبر کے آخر تک مستعفی ہو جانے کا امکان ہے۔ صیہونی فوجی کمانڈرز کی جانب سے مسلسل استعفے اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اسلامی مزاحمتی فورسز کے خلاف جنگ سے پریشان ہیں اور انہیں حماس اور اسلامی مزاحمت کے خلاف جنگ میں کامیابی کی بھی کوئی امید نہیں ہے۔ دوسری طرف نیتن یاہو اور اس کے انتہاپسند وزیر غزہ میں فوجی موجودگی برقرار رکھنے پر بضد ہیں جس کے باعث صیہونی فوج انتشار کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔

دوسری طرف مقبوضہ فلسطین خاص طور پر تل ابیب میں صیہونی آبادکاروں کی جانب سے جاری احتجاجی مظاہرے بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف حماس کے ہاتھوں اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف حریدی یہودی بھی حکومت کی جانب سے زبردستی فوج میں بھرتی کئے جانے کے فیصلے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ اب تو مظاہرین بنجمن نیتن یاہو کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ سے اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ اور ان کے حامی نیتن یاہو سے مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ جلد از جلد جنگ بندی کے ذریعے یرغمالیوں کی آزادی یقینی بنائی جائے۔ یرغمالیوں کے اہلخانہ نے اپنے بیانیے میں کہا ہے: "اسرائیلی حکومت یرغمالیوں کی واپسی تک سکون کا سانس نہیں لے گی۔” بڑی تعداد میں صیہونی سیاست دان بھی نیتن یاہو کو جنگ میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے میں مصروف ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے