علی امین گنڈا پور: کے پی ہاؤس میں ’پراسرار گمشدگی‘ سے خیبرپختونخوا اسمبلی کی ’سرپرائز انٹری‘ تک

2604856-Sardaraliamingandapur-1707896065-257-640x480.jpg

خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور ہفتے کی دوپہر جتنے پراسرار طریقے سے تمام تر رکاوٹوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں سے بچتے بچاتے اسلام آباد کے وسط میں نمودار ہونے کے بعد اچانک کے پی ہاؤس سے ’گمشدہ‘ ہوئے، اس سے زیادہ پراسرار طریقے سے وہ ہفتے کی رات خیبرپختونخواہ اسمبلی میں عین اُس وقت نمودار ہوئے جب اراکین اسمبلی تک اُن کی مبینہ ’گمشدگی‘ پر دھواں دار تقریریں کر رہے تھے۔واضح رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد کے ڈی چوک پر جمعے کے دن احتجاج کے اعلان کے بعد علی امین گنڈاپور خیبر پختونخوا سے ایک قافلے کی شکل میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تھے تاہم ہفتے کی صبح تک اُن کا قافلہ موٹروے پر ہی موجود تھا۔

تمام تر رکاوٹوں کے باوجود انھوں نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ وہ ہر صورت ڈی چوک میں احتجاج کے لیے پہنچیں گے جو اُس وقت تو ناممکن لگ رہا تھا لیکن پھر اچانک چند گاڑیوں کے ساتھ وہ اسلام آباد کے بلیو ایریا میں واقع ریڈ زون کے قریب نمودار ہوئے جہاں انھوں نے کارکنان سے ایک مختصر خطاب کیا اور پھر غائب ہو گئے۔بعد میں علم ہوا کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع خیبرپختونخوا ہاؤس پہنچے ہیں تاہم کچھ ہی دیر بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری بھی اسی مقام پر دیکھی گئی جس کے بعد پہلے اُن کی ’گرفتاری‘ کا دعویٰ کرنے کے بعد تحریک انصاف نے بیان دیا کہ علی امین گنڈاپور کو خیبر پختونخوا ہاؤس میں ’حبس بے جا میں‘ رکھا گیا ہے۔

تاہم وزیر داخلہ محسن نقوی نے اِن خبروں کی تردید کرتے ہوئے اتوار کو کہا کہ گنڈاپور کسی ریاستی ادارے کی تحویل میں نہیں بلکہ اپنی مرضی سے خیبر پختونخوا ہاؤس سے ’بھاگ گئے تھے جس کے شواہد بھی موجود ہیں۔یہ سسپنس اتوار کی رات دیر گئے تک برقرار رہا کہ علی امین گنڈا پور گئے تو گئے کہاں اور کیا وہ ’حبس بے جا‘ میں ہی ہیں جیسا کہ تحریک انصاف دعویٰ کر رہی ہے یا پھر حکومت کا دعویٰ درست ہے کہ وہ خیبرپختونخوا ہاؤس سے فرار ہو چکے ہیں؟

اتوار کی رات اُن کی مبینہ گمشدگی کے خلاف خیبرپختونخوا کی اسمبلی کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب ہوا جہاں اراکین اسمبلی کی جانب سے دھواں دار تقاریر سے یہ واضح تھا کہ بیشتر ممبران اسمبلی کو بھی اِس بات کا علم نہیں تھا کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کہاں ہیں۔تب ہی اچانک سے علی امین گنڈا پور اسمبلی میں نمودار ہوئے جہاں اُن کو دیکھتے ہی اراکین نے نعرے بلند کیے اور وزیر اعلی ہاتھ ہلا کر اُن نعروں کا جواب دیتے دکھائی دیے۔ ’تیرا بھائی، میرا بھائی، علی بھائی، علی بھائی‘ کے نعرے تھمے تو علی امین گنڈا پور اپنی نشست پر کھڑے ہوئے۔

’یہاں پر ہوا کیا ہے، پتہ ہے؟‘

سپیکر اسمبلی نے بھی اُن کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’اِجلاس بُلایا ہی اس لیے گیا تھا کہ ہمارے وزیر اعلیٰ کو اغوا کیا گیا ہے، اب آپ آ گئے ہیں۔‘ ایسے میں توقع تھی کہ علی امین گنڈا پور اس راز سے پردہ اٹھائیں گے کہ وہ تھے کہاں؟ تاہم اُن کی تقریر کا آغاز سیاسی اور ماضی کی باتوں سے ہوا۔علی امین گنڈا پور نے پہلے لاہور کے جلسے میں تاخیر سے پہنچنے کی وضاحت کی، پھر اسلام آباد میں سنگجانی میں ہونے والے جلسے تک پہنچنے کا احوال سُنایا۔ پھر علی امین نے کہا کہ ’یہاں پر ہوا کیا ہے پتہ ہے؟ مزہ آیا ہے، مزہ۔‘

’یہ سوچ رہے تھے کہ نہیں جا سکتے؟ پہنچے ہیں اور وہیں پہنچے ہیں، ڈی چوک پر۔‘ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’وہاں پہنچنے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ کیوں کہ ہم بلکل فرنٹ پر آ چکے ہیں، اللہ نہ کرے نقصان نہ ہو جائے۔ وہاں سے ہم نے کہا کہ کے پی ہاؤس جاتے ہیں کیوںکہ لوگ ڈھائی دنوں کے تھکے ہوئے تھے۔ ہم نے سوچا چائے پیتے ہیں اور پھر عمران خان سے ملاقات ہو گی، وہ جو لائحہ عمل دیں گے، اس پر عمل کریں گے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ جیسے ہی وہ کے پی ہاؤس پہنچے تو آئی جی اسلام آباد نے رینجرز کے ہمراہ دھاوا بول دیا۔ ’نہیں پتا وہ کس کو پکڑنے آئے تھے۔ میں نے کون سا جرم کیا تھا؟اسلام آباد پولیس پر کے پی ہاؤس میں تھوڑ پھوڑ کے الزامات عائد کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے یہ دعویٰ کیا کہ ’میرا موبائل بند تھا کیوں کہ سگنل نہیں تھے۔‘ بعد میں علی امین گنڈا پور نے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ وہ خود کہاں تھے؟

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اُدھر کے پی ہاؤس اسلام آباد میں ہی تھا رات کو، چار چھاپے مارے انھوں نے، لیکن نہیں پکڑ سکے۔یعنی تحریک انصاف کی جانب سے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی گرفتاری اور انھیں حبس بے جا میں رکھنے کا دعویٰ غلط تھا۔ تاہم کے پی ہاؤس سے علی امین گنڈا پور واپس پشاور کیسے پہنچے؟ اس سوال کا جواب علی امین گنڈا پور نے نہیں دیا اور عمران خان کے حق میں نعرے لگاتے یہ سسپنس پیچھے چھوڑ گئے۔واضح رہے کہ اُن کی جماعت تحریک انصاف نے ایکس پر ایسی ویڈیوز شیئر کی ہیں جن میں کے پی ہاؤس میں گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے دکھائے گئے اور یہ سوال پوچھا گیا کہ ’کیا آپ دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایک صوبے کے منتخب وزیرِاعلیٰ کو اغوا کرنے کے بعد ان کی بلٹ پروف گاڑی کو توڑ رہے ہیں؟ ۔۔۔ آخر مقصد کیا ہے؟

’وہ وہاں نہیں تھے، جہاں ہمیں شک تھا‘

اس سوال پر کہ گنڈاپور کہاں ہیں، وزیر داخلہ محسن نقوی نے اتوار کے دن کہا تھا کہ ’اگر وہ اسلام آباد کی حدود میں ہوں گے تو پولیس انھیں ڈھونڈ نکالے گی۔اتوار کو ڈی چوک پر پولیس کانسٹیبل کی نمازِ جنازہ کے بعد محسن نقوی کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور ’نہ تو ہماری حراست میں ہیں، نہ پاکستان کے کسی ادارے کی حراست میں ہیں۔ان کے مطابق ’ہم نے رات کو دو تین ریڈ کیے ہیں مگر وہ وہاں نہیں تھے جہاں ہمیں ان کے بارے میں شک تھا۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ’وہ جہاں پر ہمیں ملیں گے تو پولیس اپنی کارروائی کرے گی۔‘

اس سے قبل محسن نقوی نے اتوار کو اپنے بیان میں کے پی ہاوس پر پولیس کے چھاپے کی تصدیق کی تھی تاہم انھوں نے علی امین گنڈا پور کے حوالے سے کہا تھا کہ ’جب کے پی ہاؤس پر پولیس نے ریڈ شروع کیا تو وہ مرکزی دروازے سے بھاگ گئے تھے۔ان کی بھاگتے ہوئے تصویریں بھی موجود ہیں، وہ ہم دکھا سکتے ہیں۔ ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ خود بھاگے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد پولیس انھیں ڈھونڈ رہی ہے۔واضح رہے علی امین گنڈاپور جب پشاور سے اسلام آباد ایک قافلے کی صورت میں آ رہے تھے تو ان کا مقصد ڈی چوک پر تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کی مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف احتجاج میں شامل ہونا تھا جس کے راستے میں کنٹیروں کا ایک سمندر موجود تھا۔اسلام آباد کے قریب ان کے قافلے کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے مطابق علی امین گنڈاپور کا قافلہ راستے سے تمام تر رکاوٹیں ہٹاتا ہوا اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا۔

مگر 26 نمبر چونگی کے مقام پر وزیر اعلیٰ نے اپنے قافلے سے راہیں جدا کیں اور چند ساتھیوں کے ہمراہ اپنی گاڑی کا رُخ اسلام آباد کی مارگلہ روڈ کی طرف کر دیا۔صحافی عادل تنولی یہ سب مناظر اپنے ٹی وی چینل کے لیے محفوظ کر رہے تھے۔عادل نے ہمیں بتایا کہ علی امین گنڈاپور مارگلہ روڈ سے ڈی چوک کے قریب چائنہ چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔انھوں نے وہاں دس سے پندرہ منٹ گزارے، جذباتی خطاب کیا، عمران خان کے حق میں نعرے لگوائے، کارکنوں کو پر امن رہنے کی تلقین کی اور پھر انھیں یہیں چھوڑ کر آگے نکل گئے۔

اسلام آباد کے ریڈ زون میں خیبر پختونخوا ہاؤس

چائنہ چوک میں پی ٹی آئی کے دھرنے کی کوریج پر مقامی صحافی امانت گشکوری بھی مامور تھے۔ امانت نے بتایا کہ علی امین نے چائنہ چوک میں پی ٹی آئی کارکنان کے ساتھ کچھ وقت گزارا، ان کی طرف ہاتھ ہلائے، فوٹیج بنوائی اور پھر وہاں سے چلتے بنے۔ان کے مطابق جب صحافیوں نے استفسار کیا تو انھیں بس یہ کہا گیا کہ ’وزیراعلیٰ اہم مصروفیات کی وجہ سے ریڈ زون میں واقع کے پی ہاؤس چلے گئے ہیں۔امانت کے مطابق جب وہ کے پی ہاؤس پہنچے تو وہیں تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی بھی آ گئے تھے۔بیرسٹر گوہر جب اپنی گاڑی پر باہر نکلے تو وہاں موجود صحافیوں نے ان سے علی امین سے متعلق پوچھا مگر وہ کوئی جواب دیے بغیر وہاں سے چلے گئے۔دریں اثنا پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنان چائنہ چوک سے نعرے لگاتے ہوئے ریڈ زون کی طرف بڑھنے لگے جہاں ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی اور پولیس سے تصادم ہوا۔

امانت کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور بھی اپنے سکیورٹی اہلکاروں سمیت چائنہ چوک سے ہی کے پی ہاؤس گئے تھے اور انھیں کسی نے نہیں روکا تھا۔اس سوال پر کہ وہ اپنے قافلے کو چھوڑ کر کے پی ہاؤس کیوں گئے، پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلیٰ 36 گھنٹے سے سفر میں تھے اور ان کا موبائل سروسز کی معطلی کے باعث کسی سے رابطہ بھی نہیں ہو رہا تھا، اس وجہ سے وہ کے پی ہاؤس گئے جو ان کی سرکاری رہائشگاہ اور دفتر بھی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’یہ قیاس آرائیاں درست نہیں کہ وزیراعلیٰ کسی انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ کارکنان کو تنہا چھوڑ کر نکل گئے۔یہ پہلی بار نہیں کہ علی امین گنڈاپور احتجاج کے دوران مبینہ طور پر لاپتہ ہوئے ہوں۔

آٹھ ستمبر کو علی امین گنڈاپور نے اسلام آباد کے جلسے میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت زبان استعمال کی تھی تو اس کے کچھ دیر بعد ان کا کسی سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا اور رات بھر غائب رہنے کے بعد وہ اگلی صبح پشاور پہنچے تھے۔علی امین نے بعد میں یہ بتایا تھا کہ وہ ایک اعلیٰ سطح سکیورٹی اجلاس میں شریک تھے اور جس مقام پر وہ موجود تھے وہاں پر موبائل فون کے سگنلز نہیں تھے۔اس واقعے کے اگلے روز عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو میں خود یہ الزام لگایا تھا کہ علی امین گنڈاپور کو ’اسٹیبلشمنٹ نے اٹھایا تھا۔اس کے چند دن بعد 21 ستمبر کو لاہور میں ہونے والے جلسے میں بھی وزیراعلیٰ علی امین سب سے آخر میں وہاں پہنچے اور پھر کارکنان سے گفتگو کر کے وہاں سے چلے گئے۔

وزیر اعلیٰ نے اس کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیا تھا اور یہ الزام لگایا تھا کہ پنجاب حکومت نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں جس کی وجہ سے انھیں جلسے تک پہنچنے میں تاخیر ہوئی تھی۔خیال رہے کہ تحریک انصاف کے سینیئر رہنماؤں اور ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد اسلام آباد میں پارٹی کارکنان کے ساتھ احتجاج میں کھڑی نظر نہیں آئی۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کے مطابق انھیں ارکان اسمبلی کی گرفتاری کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے انھیں اس احتجاج میں آنے کا نہیں کہا گیا تھا۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے