دریائے نیل سے نہرِ فرات تک پھیلے ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور
ایک دن آئے گا جب ہماری سرحدیں لبنان سے لے کر سعودی عرب کے عظیم صحراؤں سے ہوتی ہوئی بحیرہ روم سے لے کر نہرِ فرات (عراق) تک پھیلی ہوں گی۔رواں برس جنوری میں اسرائیلی مصنف ایوی لپکن کا یہ انٹرویو بہت وائرل رہا جس میں انھوں نے گریٹر اسرائیل کے تصور پر بات کرتے ہوئے کہا تھا ’فرات کے دوسری جانب کرد ہیں جو ہمارے دوست ہیں۔ ہمارے پیچھے بحیرہ روم ہے اور ہمارے آگے کرد۔۔۔ لبنان کو اسرائیل کے تحفظ کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مکہ اور مدینہ اور طورِ سینا پر بھی قبضہ کریں گے اور ان جگہوں کو پاک کریں گے۔اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بعد لبنان میں بھی جاری کارروائیوں کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک بار پھر سے ’گریٹر اسرائیل‘ کے تصور کی گونج ہے۔
اس کی ایک وجہ غزہ میں زمینی کارروائی کے دوران کچھ سوشل میڈیا پوسٹس میں کیا گیا یہ دعویٰ بھی تھا کہ بعض اسرائیلی فوجیوں نے اپنے یونیفارم پر ’گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے کا بیج پہن رکھا ہے جبکہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزرا کی جانب سے بھی ماضی میں اس تصور کا ذکر کیا جاتا رہا ہے۔اس پر عرب ممالک کے صارفین کی طرف سے تشویش ظاہر کی گئی تھی کیونکہ ’دا پرومسڈ لینڈ‘ (وہ زمین جس کا وعدہ کیا گیا ہے) کے نقشے میں اردن، فلسطین، لبنان، شام، عراق اور مصر کے کچھ حصے بھی شامل تھے۔ہمسائیہ ممالک میں اسرائیلی کارروائیوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران اس نے ایران، شام اور لبنان میں ٹارگٹڈ حملے بھی کیے ہیں اور اقوامِ متحدہ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی جنگ بندی کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اسرائیلی کارروائیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بے باک ہوتی جا رہی ہیں۔
اسرائیل میں بہت سے یہودی اس خطے کو ’ایرٹز اسرائیل‘ یا ’لینڈ آف اسرائیل‘ کے نام سے جانتے ہیں اور یہ اسرائیل کی موجودہ سرحدوں سے کہیں بڑا جغرافیائی علاقہ ہے۔گریٹر اسرائیل کا تصور کوئی نیا خیال نہیں مگر یہ تصور کہاں سے آیا اور ’دا پرومسڈ لینڈ‘ میں کون کون سے علاقے شامل ہیں، یہ جاننے کے لیے ہمیں کئی سو سال پیچھے جانا پڑے گا۔صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کے مطابق ’پرومسڈ لینڈ‘ یا گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مصر میں دریائے نیل سے لے کر عراق میں نہرِ فرات تک کے علاقے شامل ہیں یعنی فلسطین، لبنان، اردن، عراق، ایران، شام، مصر، ترکی اور سعودی عرب بھی گریٹر اسرائیل کا حصہ ہوں گے۔سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی اور بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا۔
اس کے بعد اسرائیلی سیاستدان اور سابق وزیراعظم مینیچم بیگن نے کہا تھا کہ ’فلسطین کی تقسیم غیر قانونی ہے۔ یروشلم ہمارا دارالحکومت تھا اور ہمیشہ رہے گا اور ایرٹز اسرائیل کی سرحدوں کو ہمیشہ کے لیے بحال کیا جائے گا۔اخبار ٹائمز آف اسرائیل میں ’زایونزم 2.0: تھیمز اینڈ پروپوزلز آف ریشیپنگ ورلڈ سیویلائزیشن‘ کے مصنف ایڈرئن سٹائن لکھتے ہیں کہ گریٹر اسرائیل کا مطلب مختلف گروہوں کے لیے مختلف ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل میں اور ملک سے باہر رہنے والے یہودیوں کے لیے گریٹر اسرائیل کی اصطلاح کا مطلب مغربی کنارے (دریائے اردن) تک اسرائیل کی خودمختاری قائم کرنا ہے۔ اس میں بائبل میں درج یہودیہ، سامرہ اور ممکنہ طور پر وہ علاقے شامل ہیں جن پر 1948 کی جنگ کے بعد قبضہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس میں سینائی، شمالی اسرائیل اور گولان کی پہاڑیاں شامل ہیں۔
اس حوالے سے مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والی اور واشنگٹن میں مقیم پالیسی تجزیہ کار تقیٰ نصيرات کہتی ہیں کہ ’گریٹر اسرائیل کا تصور اسرائیلی معاشرے میں رچا بسا ہے اور حکومت سے لے کر فوج تک اسرائیلی معاشرے کے بہت سے عناصر اس کے علمبردار ہیں۔نمائندہ سے بات کرتے ہوئے تقیٰ نصيرات کا کہنا ہے کہ اسرائیلوں کا ماننا ہے کہ اسرائیل بائبل میں درج حوالوں اور تاریخ اعتبار سے ان زمینوں کا حقدار ہے جو نہ صرف ’دریا سے سمندر تک‘ بلکہ ’دریا سے دریا تک‘ پھیلی ہوئی ہیں۔ یعنی دریائے فرات سے دریائے نیل تک اور ان کے درمیان تمام علاقے۔وہ کہتی ہیں کہ ’اگرچہ گریٹر اسرائیل کے تصور کے پیچھے اصل خیال یہی ہو سکتا ہے مگر آج کے اسرائیل میں ایک زیادہ حقیقت پسندانہ سوچ یہ ہے کہ اس میں اسرائیل کی سرحدوں سے باہر کے وہ علاقے بھی شامل ہیں جن پر اس نے طویل عرصے سے قبضہ کر رکھا ہے یعنی مغربی کنارے کے علاقے، غزہ اور گولان کی پہاڑیاں۔
تاہم برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اور ’کنگ فیصل سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک سٹڈیز‘ سے منسلک ایسوسی ایٹ فیلو عمر کریم گریٹر اسرائیل کو ’محض ایک افسانوی تصور‘ مانتے ہیں۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمر کریم نے بتایا کہ یہودی مذہب کے مطابق گریٹر اسرائیل سے مراد مشرقِ وسطی میں وہ تمام قدیمی علاقے ہیں جو سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے اور جہاں یہودی آباد تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’جب بنی اسرائیل مصر سے نکل کر آئے تھے تو اس وقت ان کا مرکز فلسطین تھا جہاں آ کر وہ آباد ہوئے‘ اسرائیلی حکومت اسے آج بھی جودیہ صوبے کا حصہ مانتی ہے اور اس کے علاوہ گریٹر اسرائیل میں وہ تمام علاقے شامل ہیں جہاں جہاں یہودی آباد تھے۔عمر کا ماننا ہے کہ گریٹر اسرائیل ایک ایسی فینٹیسی ہے جو پریکٹیکل نہیں ’مگر یہودیوں سے زیادہ صیہونی سیاست میں اس کا بہت ذکر ملتا ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ ’عملی طور پر‘ اسرائیلی، فلسطین کے تمام مقبوضہ علاقوں سمیت مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کو اپنا حصہ مانتے ہیں لیکن اگر صرف ’فینٹیسی‘ کی بات کی جائے تو گریٹر اسرائیل میں جزیرہ نما عرب یعنی آج کے سعودی عرب، عراق، اردن، مصر کے کچھ علاقے اس میں شامل ہیں۔
’دا پرومسڈ لینڈ‘ کے متعلق عمر کریم بتاتے ہیں کہ جب حضرت یوسف کے دور میں یہودی مصر میں آباد ہوئے تب ان کی حکمرانی فلسطین سے لے کر بلادِ شام (آج کا شام) اور فرات کے کچھ علاقوں تک تھی اور عرب ریاستیں نہ ہونے کے باعث ان کا اثرورسوخ کئی علاقوں تک تھا اور گریٹر اسرائیل کا تصور یہیں سے آیا ہے کہ ’بنی اسرائیل کی اولاد جہاں جہاں پلی بڑھی ہے وہ سب علاقے ہمارے ملک کا حصہ ہوں۔‘تاہم وہ کہتے ہیں کہ عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہے اور اب گریٹر اسرائیل کا مطلب صرف مقبوضہ علاقے ہیں جن میں فلسطین کے مقبوضہ علاقوں سمیت مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ شامل ہیں۔
گریٹر اسرائیل پھر سے موضوعِ بحث کیوں ہے، کیا اسرائیل ’گریٹر اسرائیل‘ کے منصوبے پر کام کر رہا ہے؟
تقیٰ نصيرات 2023 میں دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر بیزلیل سموٹریچ کے پیش کردہ ’گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے کا حوالہ دیتی ہیں جس میں اردن بھی شامل تھا اور جس کے باعث سفارتی تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔یاد رہے کہ اسرائیلی وزیر نے پیرس میں ایک تقریر کے دوران گریٹر اسرائیل کا ایک نقشہ پیش کیا تھا جس میں اردن اور مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ اردن نے بیزلیل پر دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے شدید احتجاج کیا تھا۔تقیٰ نصيرات کہتی ہیں ’حقیقت یہ ہے کہ سموتریچ ہو یا بین گویر، جن حلقوں کی وہ نمائندگی کرتے ہیں وہ اسی تصور کو اسرائیل کا جائز مستقبل سمجھتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اسی تصور کا استعمال کرتے ہوئے نیتن یاہو کی موجودہ حکومت میں غیر قانونی اسرائیلی آباد کاروں کو مسلح کرنے، ان کی حمایت اور تحفظ فراہم کر کے اسے حقیقت میں بدل دیا ہے۔
تقیٰ کہتی ہیں کہ یہ غیر قانونی اسرائیلی آباد کار زبردستی فلسطینیوں کے زیتون کے باغوں کو جلا کر، انھیں ان کے گھروں سے بے گھر کرکے اور ڈرا دھمکا کر انھیں اپنی حفاظت کے لیے بھاگنے پر مجبور کر رہے ہیں اور مغربی کنارے میں نئی بستیاں قائم کر رہے ہیں۔تقیٰ نصيرات کا ماننا ہے کہ حماس کے اسرائیل پر کیے گئے 7 اکتوبر والے حملوں کے بعد ان عناصر (غیر قانونی مسلح اسرائیلی آباد کاروں) نے نمایاں اثر و رسوخ اور طاقت حاصل کر لی ہے اور وہ اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) اور نتن یاہو کے وزرا کی حفاظت میں اس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اکثر انھیں ’غیر ریاستی عناصر‘ پکارا جاتا ہے لیکن انھیں کچھ بھی پکار لیں، حقیقت یہی ہے کہ انھیں براہ راست وزیر اعظم نتن یاہو کی حمایت حاصل ہے جنھوں نے اس سال جولائی میں 5300 نئی بستیوں کے قیام کی منظوری دی تھی۔تاہم عمر کریم کا ماننا ہے کہ ’کسی بھی قوم میں انتہا پسند ایسے ہی خواب دیکھتے ہیں جیسے اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کی صہیونی افراد کے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کی ریاست قائم ہونے کے بعد یہودیوں کو ایک مذہبی ریاست کا تصور دوبارہ سے ملا ہے کیونکہ پہلے یہودی جہاں بھی آباد تھے یا تو وہ اقلیت میں تھے یا ان ملکوں کے شہری تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ پاکستان کی طرح انھیں اسرائیل کی صورت میں ایک مذہبی ریاست کا تصور ملا ہے جہاں آپ کا مذہب ہی آپ کی قومیت کی بنیاد ہے اور ’یہییں سے اس بحث نے جنم لیا کہ چونکہ اب ہم نے اپنی مذہبی ریاست قائم کر لی ہے لہٰذا اب ہم اسے روایتی حدوں تک لے کر جائیں گے۔عمر کا کہنا ہے کہ آج کے اسرائیل میں بہت کم افراد ’جو انتہائی اقلیت میں ہیں‘ وہ ایسی باتیں کرتے ہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ عملی طور پر یہ اس لیے بھی ممکن نہیں کہ اسرائیل کے اردن جیسے ہمسائیہ ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں جن کا مطلب ہے کہ وہ ان ممالک کی سرحدی حدود کو تسلیم کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ عرب امارت اور گلف کے ساتھ بھی اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ بھی ان کی خراب تعلقات نہیں۔۔ اور ملک کی تیسری جانب شام کے ساتھ بھی اسرائیل کا صرف گولان ہائٹس کا تنازع ہے اور اس کے علاوہ دونوں ممالک کے بیچ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔عمر کریم کا کہنا ہے کہ سیاسی اور عملی طور پر گریٹر اسرائیل کے قیام کی باتیں محض خیالی ہیں اور اسرائیل میں سنجیدہ سیاست دان اور تجزیہ کار اس بارے میں کبھی بات کرتے نظر نہیں آتے تاہم یہ فینٹسی ان طبقات میں ضرور موجود ہے جو ایک طرح سے پوری دنیا میں یہودیوں کی نشاتِ ثانیہ کا تصور رکھتے ہیں۔
اگر اسرائیل گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہے تو مغرب کا کیا ردِعمل ہو گا؟
اگر اسرائیل گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہے تو مغرب کا اس پر کیا ردِعمل ہو گا؟ اس حوالے سے تقیٰ نصيرات کہتی ہیں کہ اب تک مغرب، خاص طور پر امریکہ نے زمینی حقائق کی تبدیلی اور اسرائیلی بستیوں کی توسیع کے حوالے سے کمزور ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اس سال کے شروع میں جب اسرائیل نے کچھ پرتشدد آباد کاروں کو بستیاں قائم کرنے کی منظوری دی تو ’بائیڈن انتظامیہ نے بہت نپے تلے انداز میں ان کی مذمت کی تھی۔تقیٰ نصيرات کا ماننا ہے کہ مغرب میں اسرائیل کے حمایتی ممالک کی طرف سے ان اقدامات پر کوئی سنگین ردِعمل سامنے نہیں آیا لہٰذا ان کا ماننا ہے کہ ’ایک طرح سے مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو ’گریٹر اسرائیل‘ کے خواب کو پورا کرنے کے لیے گرین لائٹ مل گئی ہے‘ اور بااثر اسرائیلی لیڈروں کی ایک بڑی تعداد اس خواب کی تعبیر میں لگی ہے۔
تاہم اس حوالے سے عمر کریم کا کہنا ہے کہ گریٹر اسرائیل کا قیام نہ مغرب اور نہ مغرب میں رہنے والے یہودیوں کو قابلِ قبول ہو گا۔وہ کہتے ہیں کہ جب 1947 میں یہودیوں کے لیے اس ریاست کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت یہی خیال تھا کہ پوری دنیا میں انھیں استحصال کا سامنا رہا ہے لہٰذا انھیں ایک الگ ملک ملنا چاہیے جہاں وہ اس طرح کے استحصال سے بچ کر زندگی گزار سکیں اور تمام مغربی ممالک اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں آج بھی مغربی کنارہ اور غزہ کو مقبوضہ علاقے کہا جاتا ہے اور اسے امریکہ اور برطانیہ بھی تسلیم کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ گریٹر اسرائیل کی بات تو ایک طرف ان مقبوضہ علاقوں کے علاوہ گولان ہائٹس جہاں اسرائیل 1967 سے قابض ہے، اسے بھی تمام مغربی ممالک اور بین الاقوامی ادارے مقبوضہ علاقہ مانتے ہیں۔
عمر کریم کا ماننا ہے کہ گریٹر اسرائیل کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ اسرائیل کی پاس اتنی فوجی صلاحیت ہے کہ وہ ایسے منصوبے کو مستقبل میں عملی جامہ پہنا سکے لیکن فرض کریں ’اگر اسرائیل ایسی کوئی کوشش کرنا بھی ہے تو مغرب کی سیاسی و فوجی اجازت اور مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا۔‘ان کا ماننا ہے یہ محض ایک فینٹیسی ہے جو مختلف شدت پسند گروہوں کے لیے ’سیاسی لائف لائن‘ کا کام کرتی ہے اور ان کے نظریات کو زندہ رکھنے میں اور ان کے لیے معاشرے میں اپنی اہمیت دکھانے میں کارگر ہوتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان میں کچھ لوگ خلافت اور دنیا بھر پر راج کرنے کا تصور رکھتے ہیں۔