پی ٹی آئی کا احتجاج "ایس سی او کا اجلاس” اور حکومتی تیاریاں
اسلام آباد میں وہ آئینی ترمیم پارلیمان میں جلد پیش کیے جانے کی باز گشت ہے جس کے ذریعے حکومت ایک آئینی عدالت قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس دوران اب اسلام آباد ایک قلعہ بند شہر کا منظر پیش کر رہا ہے۔اس متوقع حکومتی آئینی ترمیم کی مخالف جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان احتجاج کی غرض سے اسلام آباد کی شاہراہِ دستور سے ملحقہ ’ڈی چوک‘ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا سے آ رہی ہے اور ان کی قیادت صوبے کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کر رہے ہیں۔مظاہرین کو روکنے کے لیے شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا ہے۔ ڈی چوک کو بھی کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا ہے اور داخلی راستوں پر پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کی بھاری نفری تعینات ہے۔
گزشتہ روز سے لگ بھگ آئندہ ایک ہفتے کے لیے پاکستانی افواج کے دستوں کو اسلام آباد کی سکیورٹی کے لیے طلب کر لیا گیا ہے۔ لاہور اور راولپنڈی سمیت صوبہ پنجاب کے بڑے شہروں میں بھی اجتماعات پر پابندی عائد ہے اور انٹرنیٹ کی سروسز معطل ہیں۔سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہنوں سمیت پی ٹی آئی کے درجنوں کارکنوں کو پولیس گرفتار کر چکی ہے جبکہ مختلف مقامات پر پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنان میں جھڑپیں بھی دیکھنے میں آئیں۔حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تمام اقدامات اس لیے کیے جا رہے ہیں کہ 15 اکتوبر کو اسلام آباد نے دو روزہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کی میزبانی کرنی ہے جس میں شرکت کے لیے بہت سے غیر ملکی وفود پاکستان آ رہے ہیں۔
حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی اس موقعے کو استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔۔۔وہ ایس سی او کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔وہ انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔‘وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ ’پی ٹی آئی کو ایسے احتجاج کی اجازت نہیں ہے۔پاکستان تحریکِ انصاف کا موقف ہے کہ ان کا احتجاج پر امن ہے اور بظاہر وہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی ’قید کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔‘تاہم سوال یہ ہے کہ کیا صرف یہی آئینی ترمیم ان کے احتجاج کی وجہ ہے؟ اور کیا پی ٹی آئی نے سوچ سمجھ کر اس موقع کا انتخاب کیا ہے جب اسلام آباد ایس سی او کی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔
متوقع آئینی ترمیم کا احتجاج سے کیا تعلق ہے؟
اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے حال ہی میں ایک آئینی ترمیم کا بل پارلیمان میں پیش کرنے کی تیاری کی لیکن پھر اس کو موخر کر دیا گیا۔ حکومت کی طرف سے خود اس ترمیم کے مسودے کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق آئین میں اس ترمیم کے مسودے میں ایک الگ آئینی عدالت قائم کرنا شامل ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ عدالت پاکستان میں پہلے سے قائم عدالتِ عظمیٰ سے الگ ہو گی جو کسی بھی قسم کے آئینی سوالات یا تنازعات کو دیکھے گی۔ ایسے سوالات پر ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کو بھی سنے گی۔اس طرح یہ اختیار سپریم کورٹ سے ’آئینی عدالت‘ کو منتقل ہو جائے گا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے حکومت کے اقدام کی مخالفت کی ہے۔حال ہی میں جیل میں ایک عدالتی پیشی کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ’اس طرح کی کوئی بھی ترمیم غیر آئینی ہو گی۔۔۔اس کا مقصد مجھے لمبے عرصے کے لیے جیل میں رکھنا ہے۔۔۔اور الیکشن فراڈ کو چھپانا ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی پنجاب کے رہنما شوکت بسرا کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت اپنے حالیہ احتجاج سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے ان میں سب سے پہلا حکومت کو آئین میں ایسی کوئی بھی ترمیم کرنے سے روکنا ہے ’کیونکہ یہ ایک غیر آئینی ترمیم ہے۔ہم آزاد عدلیہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے آ رہے ہیں‘
پی ٹی آئی رہنما شوکت بسرا نےنمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت ایسی کسی آئینی ترمیم کی تائید نہیں کرے گی۔ ان کے مطابق اس قسم کی آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت ملک میں عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگانا چاہتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’اس نوعیت کی ترامیم کرنے سے حکومت کا مقصد (مبینہ) الیکشن فراڈ پر پردہ ڈالنا ہے اور سپریم کورٹ کو کمزور کرنا ہے۔ ہماری جماعت ایسا نہیں ہونے دے گی۔انھوں نے کہا کہ ان کے احتجاج کے تین بنیادی مقاصد ہیں جن میں سب سے پہلے ’ہم آزاد عدلیہ اور اس پر یقین رکھنے والے ججز کے ساتھ یکجہتی کے لیے آ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنماؤں کی ’ناحق قید‘ کے خلاف بھی احتجاج کریں گے۔شوکت بسرا نے کہا کہ ان کے حالیہ احتجاج کا تیسرا بڑا مقصد ’انتخابات میں ہمارا مینڈیٹ چوری کرنے کے خلاف‘ آواز اٹھانا بھی ہے۔
پی ٹی آئی نے اسی وقت کا انتخاب کیوں کیا؟
حکومتی وزرا کی جانب سے پی ٹی آئی پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے اس نے دانستاً اپنے احتجاج کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا ہے جب اسلام آباد میں ایس سی او کانفرنس ہونے جا رہی ہے تا کہ وہ اس موقع کو استعمال کر کے حکومت پر دباو ڈال سکے۔انھوں نے ماضی میں ان مواقع کا حوالہ دیا ہے جب ایک مرتبہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاج اور دھرنے کی وجہ سے چین کے صدر کو اپنا پاکستان کا دورہ مؤخر کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی پہلے بھی ایسا کر چکی ہے اور ایک مرتبہ پھر وہی حربہ دوہرانا چاہتی ہے۔تاہم پی ٹی آئی کے رہنما شوکت بسرا نے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کی تردید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ سراسر حکومتی پراپیگینڈا ہے تا کہ وہ حقیقی مسئلے سے توجہ ہٹا سکے۔ ہمارے احتجاج کی تاریخیں بہت پہلے سے متعین ہو چکی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ چار اکتوبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک اور پانچ اکتوبر کو مینارِ پاکستان کے مقامات پر احتجاج کرنے کا اعلان ان کی جماعت کافی دن پہلے ہی سے کر چکی تھی اور حکومت بھی اس سے آگاہ تھی۔شوکت بسرا نے کہا کہ ان کے کارکنان کو ’دو دن لگیں، چار دن لگیں یا ایک ہفتہ لگے وہ ڈی چوک ضرور پہنچیں گے۔ حکومت کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹیں انھیں نہیں روک سکتیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ اسلام آباد اور لاہور میں ان کے احتجاج پروگرام کے مطابق ہوں گے۔
خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے رہنماوں شاندانہ گلزار اور شوکت یوسفزئی نے ہمارے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا احتجاج پر امن ہو گا۔پر امن احتجاج ہمارا حق ہے اور ہم حکومت سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں ہمارے حق سے نہ روکا جائے۔انھوں نے کہا کہ ’ہم ہر حال میں ڈی چوک اسلام آباد جانے کی کوشش کریں گے۔ اگر حکومت کی طرف سے ہمیں روکا گیا تو جہاں روکا گیا ہم وہیں دھرنا دیں گے۔انھوں نے بتایا کہ اس کو فیصلہ آئندہ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے قیادت اس وقت کرے گی۔
احتجاج کی ٹائمنگ سوچی سمجھی لگتی ہے
صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے دعوے کے برعکس ان کے اسلام آباد میں اس موقع پر ’احتجاج کی کال اور ٹائمنگ سوچی سمجھی لگتی ہیں۔ان کے خیال میں پی ٹی آئی کو لگتا ہے کہ یہ حکومت کے لیے ایک ایسا موقع ہے جس میں وہ اسلام آباد میں کسی قسم کے احتجاج نہیں چاہے گی اس لیے وہ حکومت کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
نمائندہ سے بات کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ فیصلہ براہِ راست سابق وزیر اعظم عمران خان کا ہے کہ ایسے وقت پر اسلام آباد میں احتجاج کیا جائے جب دنیا کے مختلف ممالک سے وفود پاکستان آ رہے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ دنیا کو یہ دکھائیں گے کہ کس طرح ان پر قدغن لگائی گئی ہے اور ان کو بولنے کی آزادی نہیں ہے۔تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو تاہم یہ معلوم ہے کہ حکومت ان کو ایسا نہیں کرنے دے گی اور ان کو بالآخر احتجاج موخر کرنا ہو گا تاہم اس موقع پر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے سے وہ چاہتے ہیں کہ مقتدر حلقے عمران خان سے بات کریں۔سلمان غنی کہتے ہیں کہ حکومت نے پی ٹی آئی کے اس احتجاج کو روکنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ انتہائی نوعیت کے ہیں۔
کیا حکومتی اقدامات غیر ضروری طور پر انتہائی نوعیت کے ہیں؟
وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں نے پی ٹی آئی کے احتجاج کو روکنے کے لیے انتہائی نوعیت کے اقدامات کیے ہیں جن میں فوج کی تعیناتی سمیت مختلف شہروں میں انٹرنیٹ کی معطلی اور پولیس کی بھاری نفری کی تعیناتی شامل ہے۔بعض مبصرین کے خیال میں پی ٹی آئی کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کی شدت بظاہر اس نوعیت کی محسوس نہیں ہو رہی کہ اسے روکنے کے لیے اتنی زیادہ ریاستی طاقت کا استعمال کیا جائے۔اس پر حکومت کا موقف لینے کے لیے حکومتی ترجمانوں سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم ان سے رابطہ نہیں ہو پایا۔
تاہم تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں حکومت کی طرف سے انتہائی اقدامات کی ایک وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد حکومت کسی قسم کا رسک لینے کو تیار نہیں ہے۔وہ نہیں چاہتے کہ اس قسم کا کوئی واقع دوبارہ ہونے کا موقع بن پائے اور وہ یہ بھی بالکل نہیں چاہیں گے کہ اس وقت اسلام آباد میں ہنگامہ آرائی ہو رہی ہو جب دنیا کے مختلف ممالک کے وفود اسلام آباد میں موجود ہوں۔ان کے خیال میں حکومت کے پاس احتجاج روکنے کے دو طریقے ہوتے ہیں جن میں ایک سیاسی طریقہ جو بات چیت کا ہوتا ہے اور دوسرا طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔سلمان غنی کے خیال میں حکومت نے شاید پہلا آپشن پوری طرح استعمال نہیں کیا۔