’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘ ایرانی میزائلز پروگرام پر خصوصی رپورٹ

e86cf300-5a5c-11ef-b2d2-cdb23d5d7c5b.jpg

13 اپریل 2024 کا دن تھا جب رات کے اندھیرے اور مسجد اقصیٰ کے سنہرے گنبد کے پس منظر میں ایرانی بیلسٹک میزائلوں کی روشنی سے پہلی بار ایک ایسی تصویر سامنے آئی جو شاید بہت عرصے تک دنیا کے ذہن پر نقش رہے گی۔ایران کا وہ میزائل اور ڈرون حملہ اسرائیل کے مشہور دفاعی نظام سے کافی حد تک بچنے میں کامیاب رہا جسے ’آئرن ڈوم‘ یعنی آہنی ڈھال کہا جاتا ہے۔ ایران سے داغے گئے بیلسٹک میزائل اور ڈرون ایک اسرائیلی فضائی اڈے سمیت ملک کے مختلف مقامات پر جا کر گرے۔

لگ بھگ چھ ماہ بعد، یکم اکتوبر 2024 کی رات اس حملے کو ایک بار پھر دہرایا گیا اور اس بار پہلے کے مقابلے میں میں ایرانی پاسداران انقلاب نے زیادہ بڑی تعداد میں میزائل داغے اور پہلے سے زیادہ اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔سٹمسن انسٹیٹیوٹ کے محقق اور نیٹو کے آرمز کنٹرول پروگرام کے سابق ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ ایران کے حالیہ حملے نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا ہے۔واضح رہے کہ اس حملے کی بنیاد فراہم کرنے والا ایرانی میزائل پروگرام گذشتہ کئی دہائیوں میں حیران کن رفتار سے ترقی کرتا رہا ہے اور ایرانی حکومت کو اس پروگرام پر اس حد تک بھروسہ ہے کہ اِن میزائلوں کی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کی وجہ سے اِن کے لیے ’پوائنٹر‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اسی لیے یہ میزائل پروگرام مغربی دنیا اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے چند عرب ممالک کے لیے بھی سنجیدہ مسئلہ بنا رہا ہے۔

یہ میزائل پروگرام کیا ہے، ایران کے پاس کس قسم کے اور کتنے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل ہیں اور تمام تر پابندیوں کے باوجود ایرانی میزائل پروگرام اتنا جدید کیسے بنا؟ ان تمام سوالوں کے جواب اس تحریر میں موجود ہیں۔

پابندیوں کے باوجود ایرانی میزائل پروگرام کی ترقی کا سفر

امریکی ادارے پیس انسٹیٹیوٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں ایران کے پاس سب سے بڑا اور متنوع بیلسٹک میزائلوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایران خطے کا واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار تو نہیں لیکن اس کے بیلسٹک میزائل دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ سکتے ہیں۔بیلسٹک ٹیکنالوجی تو دوسری عالمی جنگ کے وقت بن چکی تھی، تاہم دنیا میں صرف چند ہی ممالک کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ خود اس ٹیکنالوجی کی مدد سے بیلسٹک میزائل بنا سکیں۔ایران نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران شدید نوعیت کی بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود یہ ٹیکنالوجی حاصل بھی کی اور بیلسٹک میزائل تیار بھی کیے۔ ایرانی رہبر اعلیٰ خامہ ای نے حال ہی میں ایک خطاب میں کہا تھا کہ جس عسکری اور میزائل پروگرام سے مغرب پریشان ہے، وہ سب پابندیوں کے دوران بنا۔

سنہ 2006 میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک قراردار منظور کی جس کے تحت کسی بھی قسم کی جوہری ٹیکنالوجی یا مواد کی ایران کو فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس میں ایسا سامان بھی شامل تھا جسے کسی اور مقصد کے ساتھ ساتھ عسکری مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔تین ہی ماہ بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک اور قرارداد میں ایران سے روایتی ہتھیاروں یا اسلحہ کی لین دین پر بھی مکمل پابندی لگا دی جس میں عسکری ٹیکنالوجی بھی شامل تھی۔ اس قرارداد کے تحت لگنے والی پابندیوں کی زد میں ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ بیلسٹک میزائل پروگرام بھی آیا۔ایسے میں ایران کے لیے روس اور چین جیسے ممالک سے بھی اسلحہ خریدنا آسان نہ رہا جن سے وہ عراق جنگ کے وقت سے سامان خرید رہا تھا۔

بیلسٹک میزائل جوہری وار ہیڈ (یعنی جوہری ہتھیار) لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور مغربی ممالک کے مطابق چونکہ ایران نے بیلسٹک ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے اس لیے وہ جوہری توانائی کے حصول اور جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری سطح تک یورینیم کو افزودہ کرنے کی کوئی کوشش ترک نہیں کرے گاـجولائی 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان مشترکہ جامع پلان آف ایکشن معاہدے کے اختتام اور پھر ’قرارداد 2231‘ کی منظوری کے بعد، ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تمام پابندیاں ہٹا دی گئیں۔تاہم، ’ٹرگر/سنیپ بیک میکانزم‘ کے نام سے جانی جانے والی شق نے ہتھیاروں کی پابندیوں کو برقرار رکھا جس کے تحت خاص طور پر پانچ سال تک ایران کے میزائل پروگرام کی نگرانی ہونی تھی۔ یہ ایران پر دباؤ ڈالنے اور اس کے میزائل پروگرام کو کنٹرول کرنے کا ایک حربہ تھا۔

تاہم ایران نے اپنا میزائل پروگرام اس حد تک بڑھایا کہ مارچ 2016 میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ایک مشترکہ خط لکھتے ہوئے ایران پر میزائل تجربات کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس نے ’جے سی پی او اے‘ معاہدے کے بعد سلامتی کونسل کی ’قرارداد 2231‘ کی خلاف ورزی کی ہے۔بالآخر 2020 میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔ امریکہ کے اس معاہدے سے دستبرداری کی ایک وجہ ایران کے میزائل پروگرام کے خطرے سے نمٹنے اور اس پروگرام کا معائنہ اور تصدیق کرنے کے لیے درکار طریقۂ کار کی کمی تھی۔اگرچہ ایران نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کا حصہ ہے لیکن قرارداد 2231 میں طے شدہ ڈیڈ لائن کے خاتمے کے ساتھ ہی، روحانی حکومت نے اکتوبر 2021 میں روس اور چین سے ہتھیاروں کی خریداری کے لیے اشتہارات دیے، لیکن پابندیاں ابھی تک برقرار ہیں اور انھوں نے ایران کو اب تک اس خواہش کے حصول سے باز رکھا ہے۔

ایران اس وقت 50 سے زیادہ قسم کے راکٹ، بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے ساتھ ساتھ عسکری ڈرونز تیار کرتا ہے، جن میں سے کچھ روس اور یوکرین کی جنگ جیسے عالمی تنازعات میں استعمال بھی ہوئے ہیں۔ایران، عراق جنگ کے دوران ایران کے توپ خانے کی مار کرنے کی حد 35 کلومیٹر تھی جبکہ عراقی فوج کے پاس 300 کلومیٹر تک مار کرنے والے ’سکِڈ بی‘ بیلسٹک میزائل تھے، جو ایران کے اندر مختلف شہروں کو نشانہ بناتے تھے۔جب عراقی فوج نے میزائل حملوں کی بنیاد پر برتری حاصل کی تو ایران نے بھی میزائل استعمال کرنے کا سوچا اور اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر روح اللہ خمینی نے عراق کے میزائل حملوں کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی۔اسی سلسلے میں نومبر 1984 میں حسن تہرانی مقدم کی سربراہی میں ’پاسدرانِ انقلاب میزائل کمانڈ‘ کا آغاز کیا گیا۔ایران نے 1985 میں پہلی بار لیبیا سے روسی ساختہ ’سکڈ بی‘ میزائل خریدے اور 30 میزائلوں کی کھیپ کے ساتھ ہی لیبیا سے تکنیکی مدد کے لیے مشیر بھی ایران آئے اور ایران کا میزائل آپریشن اُن کی مدد سے ہی سرانجام پایا۔

اُس وقت پاسدارنِ انقلاب کی ایرو سپیس فورس کے کمانڈر، امیر علی حاجی زادہ، میزائل یونٹ کی تشکیل کے ذمہ دار بنے اور میزائل سرگرمیوں کے لیے ایران کے مغرب میں واقع شہر کرمان میں پہلا اڈہ تیار کیا گیا۔عراق پر ایران کی جانب سے پہلا میزائل حملہ 21 مارچ 1985 کو ہوا جس میں کرکوک شہر کو نشانہ بنایا گیا۔ دو دن بعد، دوسرا ایرانی حملہ بغداد میں عراقی آرمی آفیسرز کلب پر کیا گیا جس میں تقریباً 200 عراقی کمانڈر مارے گئے۔ایران کے اِن میزائل حملوں کے بعد عرب ممالک کی جانب سے لیبیا سے شدید احتجاج کیا گیا جس کے نتیجے میں لیبیا کے مشیروں نے ایران چھوڑ دیا اور جانے سے پہلے میزائلوں اور لانچنگ سسٹم کو ناکارہ بھی کر دیا۔

اس صورتحال میں ایرانی فضائیہ کے ارکان کے ایک گروپ نے خود ان میزائلوں کی آزمائش کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آئی آر جی سی کے ارکان کے اس چھوٹے سے گروپ نے راکٹوں اور لانچروں کے پرزے کُھول کر اُن کی ریورس انجینئرنگ شروع کی۔حسن تہرانی مقدم، جنھیں ’اسلامی جمہوریہ ایران کے میزائل پروگرام کا باپ‘ کہا جاتا ہے، ’زیرو ٹو ون ہنڈرڈ میزائل پروگرام‘ نامی دستاویزی فلم میں بتاتے ہیں کہ ایران سے لیبیا کے مشیروں کی روانگی کے بعد پاسداران انقلاب کے 13 ارکان کو سکڈ بیلسٹک میزائلوں پر کام کی تربیت کے لیے شام بھیجا گیا اور ایک محدود وقت کے اندر انھوں نے سکڈ میزائل کے کام کو سمجھ لیا۔سنہ 1986 میں مقدم کو ایرانی فضائیہ کا میزائل کمانڈر مقرر کیا گیا، اور پھر سنہ 1988 کے بعد سے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کور نے سنجیدگی سے میزائل بنانے کی کوشش شروع کی۔

سٹمسن انسٹیٹیوٹ میں عالمی سلامتی اور اس سے منسلک ٹیکنالوجیز کے محقق اور نیٹو کے اسلحہ کنٹرول پروگرام کے سابق ڈائریکٹر ولیم البرک نے میڈیا کو بتایا کہ ان برسوں میں چین اور شمالی کوریا نے بھی ایران کے ساتھ وسیع پیمانے پر میزائلوں کے حوالے سے تعاون کیا تھا اور بعد میں ایران اپنے میزائل پروگرام کو بڑھانے کے لیے روس کا ساتھ ملا۔اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ایران ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت ترقی یافتہ ملک ہے اور اس نے ریورس انجینئرنگ کر کے ان میزائلوں کے پرزوں کو الگ کرنے اور اسے دوبارہ ترتیب دینے کا طریقہ سیکھنے کے حوالے سے کافی تحقیق کی ہے۔سنہ 1980 کی دہائی میں شمالی کوریا اور بعد میں چین ایران کے میزائل پروگرام کی مدد کو آئے۔ نتیجتاً، کچھ عالمی طاقتوں نے چین کو ’میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم‘ کا رُکن بنانے کی کوشش کی، جو کہ میزائلوں کی پیداوار، ترقی اور ٹیکنالوجی کو محدود کرنے کے لیے 35 رکن ممالک کے درمیان ایک غیر رسمی سیاسی مفاہمت ہے۔ چین اس معاہدے کا حصہ بننے پر تو راضی نہ ہوا لیکن اس نے معاہدے کی شرائط پر کاربند رہنے کا عہد ضرور کیا۔

’نازعات‘ اور ’مجتمع‘ راکٹ ایران میں بنائے گئے راکٹوں کی پہلی نسل تھے، اور اس کے فوراً بعد ’تھنڈر-69‘ میزائل سامنے آیا جو بنیادی طور پر مختصر فاصلے تک مار کرنے والا چینی B610 بیلسٹک میزائل ہے، جسے ایرانی مسلح افواج نئے سرے سے ڈیزائن کر کے استعمال میں لائیں۔ایران کے میزائل پروگرام کی ترقی، پاسداران انقلاب کے ایرو سپیس میزائل یونٹ میں حسن تہرانی مقدم کی نگرانی میں اور اُس وقت آئی آر جی سی ایئر فورس کے کمانڈر احمد کاظمی کی مدد سے سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئی تھی تاکہ مزید جدید ٹیکنالوجیز جیسے بیلسٹکس اور سیٹلائٹ انجن کی تعمیر میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔ایران کے میزائل پروگرام کے دوسرے اور سنجیدہ مرحلے کا آغاز ’فتح 110‘ میزائل کی تیاری سے ہوا۔

ایران کے میزائل پروگرام کی ترقی میں حسن مقدم سب سے اہم شخصیت تھے۔ سنہ 2009 میں انھوں نے ایک پروگرام کے دوران پہلی بار ’ایکسٹرا ہیوی سیٹلائٹ انجن‘ سیریز کا تجربہ کیا۔ایرانی بیانیے کے مطابق حسن مقدم 12 نومبر 2011 کو ایک دھماکے کے نتیجے میں 16 افراد سمیت مارے گئے تھے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ فوجی اڈے پر ہونے والا وہ دھماکہ تخریب کاری کا نتیجہ تھا اور حسن تہرانی مقدم کو منظم منصوبے کے تحت قتل کیا گیا تھا۔اسلامی جمہوریہ ایران کے مطابق جب حسن مقدم ایک نئے میزائل تجربے کی تیاری کر رہے تھے تو دو دھماکے ہوئے اور وہ دوسرے دھماکے میں مارے گئے۔ دھماکے کی اصل وجہ کا کبھی تعین نہیں ہو سکا، لیکن حسن مقدم ہی تھے جن کی قبر پر لکھا گیا تھا کہ

’یہاں وہ شخص دفن ہے جو اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔‘

اِس وقت امیر علی حاجی زادہ کی سربراہی میں پاسداران انقلاب کی ایرو سپیس فورس، ایران کی مسلح افواج کے لیے میزائل اور ڈرونز بنانے والا سب سے بڑا ادارہ ہے اور گذشتہ برسوں میں، یہ دراصل ایرانی فوج کی جگہ اسلامی جمہوریہ کی بیرون ملک کارروائیوں کی ذمہ دار رہی ہے۔

میزائلوں کے زیر زمین ’شہر‘

اگرچہ ایران ہمیشہ اپنے میزائلوں کی نمائش کرتا ہے اور انھیں فوجی ہتھیاروں کی تیاری کے میدان میں ایک اہم کامیابی کے طور پر پیش کرتا ہے تاہم اس کے میزائل پروگرام اور میزائل اڈوں کی ترقی اور اُن پر ہونے والی پیشرفت خفیہ ہی رہی ہے۔پاسدارانِ انقلاب کا دعویٰ ہے کہ اُن کے پاس سنگلاخ پہاڑوں میں سرنگوں کی شکل میں خصوصی انجینئرنگ اور ڈرلنگ کے ساتھ بنائے گئے کئی میزائل اڈے ہیں۔سنہ 2014 میں پہلی بار آئی آر جی سی فضائیہ کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ نے ایسے میزائل اڈوں کے بارے میں بات کی تھی جو ایران کے مختلف صوبوں میں زمین سے 500 میٹر نیچے تک کی گہرائی میں بنائے گئے ہیں۔

اِن زیرِ زمین میزائل اڈوں کی تعمیر کب ہوئی اس بارے میں باوثوق معلومات دستیاب نہیں ہیں، لیکن فارس خبر رساں ایجنسی کے عسکری شعبے کے نامہ نگار مہدی بختیاری نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ مغربی ایران میں پہلا زیر زمین میزائل اڈہ سنہ 1984 میں بنایا گیا تھا اور اُسی وقت ایران کے میزائل پروگرام کا آغاز ہوا۔ایرانی میڈیا اور پاسدارانِ انقلاب نے اب تک کئی زیر زمین میزائل اڈوں کی مختلف تصاویر شائع کی ہیں، جنھیں وہ ’میزائل سٹی‘ کہتے ہیں۔ ان میزائل اڈوں کا صحیح مقام معلوم نہیں اور نہ ہی سرکاری طور پر اس کے بارے میں کوئی اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں۔

ان خفیہ زیر زمین اڈوں کی شائع ہونے والی تصاویر کے مطابق ان میں سے ایک میں، جو دیگر اڈوں سے بڑا معلوم ہوتا ہے، پاسدارانِ انقلاب کے سب سے اہم میزائل اور ڈرون ہتھیار رکھے گئے ہیں اور ساتھ ہی میزائلوں کی تیاری اور انھیں داغنے کی جگہ (لانچرز) ہے۔جاری کی گئی ویڈیوز میں سے ایک میں میزائل اور ان کے لانچروں سے بھری راہداری دکھائی گئی ہے اور ساتھ ہی وہ جگہ بھی جہاں میزائل فائر کیے جانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔مارچ 2019 میں پاسدارانِ انقلاب کور نے خلیج فارس کے ساحل پر ایک ’سمندری میزائل شہر‘ کی نقاب کشائی کی۔ اس اڈے کے اصل مقام کو ماضی کی طرح ظاہر نہیں کیا گیا لیکن صوبہ ہرمزگان کے مقامی میڈیا نے اس اڈے کے بارے میں خبریں دیں۔سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف حسین سلامی نے خلیج فارس کے ساحلوں پر اس ’میرین میزائل سٹی‘ کے بارے میں کہا تھا کہ ’یہ کمپلیکس پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کی سٹریٹجک میزائلوں کے ذخیرہ کرنے کی متعدد تنصیبات میں سے ایک ہے، جہاں میزائل اور لانچر سسٹم نصب ہیں۔

ایران کے زیر زمین میزائل اڈوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے، لیکن ایران کی زمینی افواج کے کمانڈر، احمد رضا پوردستان نے جنوری 2014 میں اعلان کیا تھا کہ میزائلوں والے زیرِ زمین شہر صرف پاسداران انقلاب کے لیے مخصوص نہیں ہیں اور ایرانی فوج بھی ان میں سے کئی کی مالک ہے۔امیر علی حاجی زادہ نے آئی آر جی سی کی جانب سے ایران میں میزائل بنانے والے تین زیر زمین کارخانوں کی موجودگی کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔تمام قسم کے میزائل ایران میں بنتے ہیں

ایران کی مسلح افواج، خاص طور پر پاسدارانِ انقلاب کی ایرو سپیس فورس، راکٹ اور کروز اور بیلسٹک میزائلوں کی ایک وسیع رینج تیار کرتی ہے۔بیلسٹک میزائل ایران میں تیار کیے جانے والے میزائلوں کی سب سے اہم قسم ہے۔ بیلسٹک میزائل اونچائی پر اور ایک قوس میں پرواز کرتا ہے۔ اس کی فائرنگ کے تین مراحل ہوتے ہیں، دوسرے مرحلے میں اس کی رفتار تقریباً 24 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو جاتی ہے۔ طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل داغے جانے کے بعد زمین کی فضا سے باہر نکل جاتے ہیں اور فضا میں دوبارہ داخل ہونے پر آواز کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار تک پہنچ جاتے ہیں۔کروز میزائل مکمل طور پر گائیڈڈ ہوتے ہیں اور کم اونچائی پر پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ریڈار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔ کروز میزائل کی رفتار 800 کلومیٹر فی گھنٹہ سے شروع ہوتی ہے۔

ایرانی میزائل
ایرانی میزائلوں کو چار اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

راکٹ
کروز میزائل
بیلسٹک میزائل
ہائپر سونک میزائل

ایرانی ساختہ میزائلوں کے ان چار گروپوں میں بنیادی طور پر سطح سے سطح اور سطح سے سمندر میں مار کرنے والے میزائل شامل ہیں۔البتہ دفاعی نظام کے میزائل بھی ایران کے ہتھیاروں میں شامل ہیں جن میں سے کچھ روس اور چین کے بنائے ہوئے ہیں اور کچھ ایرانی مسلح افواج کی اپنی پیشکش ہیں جن کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا۔اپریل 2024 میں اسرائیل پر اپنے میزائل حملے میں ایران نے ’عماد تھری‘ بیلسٹک میزائل، ’پاوہ‘ کروز میزائل اور ’شاہد 136‘ ڈرون کا استعمال کیا۔تاہم اسلامی جمہوریہ کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے ’خیبر شِکن‘ بیلسٹک میزائل داغنے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔

ایرانی میزائل پروگرام
عماد بیلسٹک میزائل درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا ہتھیار ہے اور اس کی رینج 1700 کلومیٹر تک ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اس میزائل کی لمبائی 15 میٹر ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے وار ہیڈ کا وزن 750 کلو گرام ہے۔ اس میزائل کی نقاب کشائی سنہ 2015 میں کی گئی تھی۔عماد میزائل القدر بیلسٹک میزائل کی بہتر شکل ہے۔پاوہ درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائلوں کا ایک خاندان ہے جس کی رینج 1650 کلومیٹر ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ میزائلوں کی ایک نسل ہے جو ہدف تک پہنچنے کے لیے مختلف راستے اختیار کر سکتا ہے۔پاوہ میزائل گروپ میں حملہ کرنے اور حملے کے دوران ایک دوسرے سے رابطے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے اسے اسرائیل پر حملے کے لیے چُنا گیا تھا۔پاوہ میزائل کی نقاب کشائی فروری 2023 میں ہوئی تھی اور ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ میزائل اسرائیل تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو 13 اپریل کو ہونے والے حملے میں ثابت بھی ہوا۔

ایران کے پاس اس وقت میزائلوں کی زیادہ سے زیادہ موثر رینج دو سے ڈھائی ہزار کلومیٹر کے درمیان ہے اور وہ فی الحال یورپی ممالک کو نشانہ بنانے کے قابل نہیں ہے۔ایران کی مسلح افواج نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسا رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کی ہدایت پر ہے جنھوں نے کہا تھا کہ فی الحال ایرانی میزائلوں کی رینج دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس ہدایت کے بعد طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کے مطابق اس فیصلے کی ایک ’وجہ‘ ہے، لیکن انھوں نے وہ وجہ بیان نہیں کی۔

’ذوالفقار‘ ایک اور مختصر فاصلے (700 کلومیٹر) تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل ہے جسے سنہ 2017 اور 2018 میں داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اس میزائل کی لمبائی 10 میٹر ہے، اس میں ایک موبائل لانچ پلیٹ فارم ہے اور اس کے ریڈار پر نظر نہ آنے کی صلاحیت سے لیس ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ذوالفقار فتح 110 میزائل کی بہتر شکل ہے اور اس کے وار ہیڈ کا وزن 450 کلو بتایا جاتا ہے۔عالمی سلامتی کے ماہر ولیم ایلبرک نے بی بی سی کو بتایا کہ ایران کے پاس میزائلوں کی تیاری کی بہت اچھی صلاحیت ہے اور ایران کے میزائل پروگرام کی ترقی دوسرے ممالک سے میزائلوں کو اُدھار لینے اور ان کی نقل بنانے سے ہوئی ہے: ’وہ مائع ایندھن سے ٹھوس ایندھن والے راکٹوں اور میزائلوں کی جانب بڑھے ہیں۔ میزائلوں کی درست طریقے سے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے، اس لیے ایران نے اس معاملے میں بہت ترقی کی ہے اور اس وقت اس کا پروگرام مختصر اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے لیے جدید ترین میزائل پروگراموں میں سے ایک ہے۔‘

ولیم ایلبرک نے حالیہ برسوں میں ایران اور روس کے درمیان قریبی فوجی تعاون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعاون ایران کو روسیوں سے سیکھنے کا موقع فراہم کرے گا اور اس تعاون کے بدلے میں ایران کو مزید جدید میزائلوں کے ڈیزائن، ٹیکنالوجی اور صلاحیتیں حاصل ہوں گی۔لیکن ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے میزائلوں کی نئی نسل ہائپر سونک ہتھیاروں کی نسل سے ہے۔ ہائپر سونک سے مراد وہ ہتھیار ہیں جن کی رفتار عام طور پر آواز کی رفتار سے پانچ سے پچیس گنا تک ہوتی ہے۔ایران نے پہلی بار ’فتح‘ میزائل کو بیلسٹک اور کروز دونوں زمروں میں ہائپر سونک میزائل کے طور پر متعارف کرایا۔’الفتح‘ کے ہائپر سونک میزائل کی رینج 1400 کلومیٹر ہے اور آئی آر جی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ میزائل کو تباہ کرنے والے تمام دفاعی نظاموں کو چکمہ دے کر انھیں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

’الفتح‘ ٹھوس ایندھن کے میزائلوں کی ایک نسل ہے جس کی رفتار ہدف کو نشانہ بنانے سے پہلے 13 سے 15 میک تک ہے۔ میک 15 کا مطلب پانچ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار ہے۔پاسدارانِ انقلاب ایرو سپیس آرگنائزیشن کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ نے الفتح میزائل کی نقاب کشائی کی تقریب میں کہا تھا کہ ’یہ میزائل تیز رفتار ہے اور فضا کے اندر اور باہر جا سکتا ہے۔‘ ساتھ ہی حاجی زادہ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ’فتح کو کسی میزائل سے تباہ نہیں کیا جا سکتا۔‘الفتح بیلسٹک میزائل کی نقاب کشائی کے بعد تہران کے فسلطین سکوائر میں اسرائیل کو دھمکی دینے کے لیے ایک اشتہار نصب کیا گیا جس پر ’400 سیکنڈز میں تل ابیب‘ تحریر تھا۔

اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے ایران کے دعوؤں اور ہائپر سونک میزائل بنانے کی دھمکی کے جواب میں کہا: ’میں نے سُنا ہے کہ ہمارے دشمن اپنے بنائے ہوئے ہتھیاروں پر شیخی بگھار رہے ہیں۔ ہمارے پاس کسی بھی ٹیکنالوجی کا بہتر جواب ہے، چاہے وہ زمین پر ہو، ہوا میں ہو یا سمندر میں۔‘الفتح-1 کی نقاب کشائی کے چار ماہ بعد، پاسدارانِ انقلاب نے الفتح-2 کی نقاب کشائی کی جو 1500 کلومیٹر تک مار کرنے والے کروز میزائلوں کی ایک نسل ہے۔ایرانی میڈیا کے مطابق الفتح-2 ’بہت کم اونچائی پر پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پرواز کے دوران کئی بار اپنا راستہ بھی بدل سکتا ہے۔‘

الفتح-2 کروز میزائل کی نقاب کشائی اُسی وقت کی گئی جب اسلامی جمہوریہ کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے آئی آر جی سی سے وابستہ ایرو سپیس سائنسز اینڈ ٹیکنالوجیز کی عاشورہ یونیورسٹی کا دورہ کیا، تاہم اس میزائل کی رینج کے بارے میں کوئی معلومات شائع نہیں کی گئیں۔اگرچہ ایران نے فتح میزائل کو اسرائیل کے خلاف خطرے کے طور پر متعارف کروایا تھا لیکن اس نے 13 اپریل اور پھر یکم اکتوبر کے حملے میں ان میزائلوں کا استعمال نہیں کیا تھا۔

ایران کا سرحد پار میزائل آپریشن

گذشتہ دہائی میں ایران مختلف وجوہات کی بنا پر علاقائی تنازعات میں شامل ہوا ہے اور اس نے اپنی سرزمین سے مخالف گروہوں، جماعتوں اور ممالک کے خلاف سرحد پار کارروائیاں کی ہیں۔ایران کی تمام بیرون ملک کارروائیاں پاسدارانِ انقلاب کی فضائیہ نے کی ہیں اور پاسداران کے اس شعبے نے ایران کی فوج کی جگہ تنازعات میں شمولیت اور ردِعمل کی ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں۔اگرچہ واضح رہے کہ پاسداران انقلاب کی بیرون ملک شاخ قدس فورس کی افواج ایران، عراق جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان سے لے کر بوسنیا اور ہرزیگوینا، عراق، شام، لبنان وغیرہ میں موجود تھیں، لیکن اسے ایران کی سرکاری طور پر موجودگی یا ردعمل نہیں سمجھا گیا۔ایران، عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ایران کی سرزمین سے دوسرے ملک پر پہلا حملہ شام کے شہر دیر الزور میں داعش کے خلاف ہوا۔ یہ آپریشن، جسے ’لیلۃ القدر‘ کا نام دیا گیا تھا، اسلامی کونسل پر داعش کے حملے کے جواب میں کیا گیا تھا۔ اس میں کرمان شاہ اور کردستان سے داعش کے ہیڈکوارٹر پر درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے چھ ذوالفقار اور قیام بیلسٹک میزائل داغے گئے تھے۔پھر عراق کے کردستان ریجن میں واقع کوئسنجق میں کردستان ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران کے ہیڈکوارٹر کو سات الفتح -110 میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ایک بیان میں پاسدارانِ انقلاب نے اعلان کیا کہ یہ جولائی 2017 میں ماریوان میں سید الشہدا حمزہ بیس پر حملے کا بدلہ تھا۔

نو اکتوبر 2017 کو ایران کے پاسدارانِ انقلاب نے اہواز میں مسلح افواج کی پریڈ پر حملے کا جواب دیتے ہوئے ’محرم کا حملہ‘ نامی آپریشن میں شام میں چھ قیام اور ذوالفقار میزائلوں کے علاوہ سات جنگی ڈرونز کی مدد سے دریائے فرات کے کنارے داعش کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا۔18 جنوری 2018 کو عراق میں امریکہ کے ہاتھوں قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں پاسداران انقلاب کی فضائیہ نے 13 فتح-313 اور قیام-2 بیلسٹک میزائل عراق میں امریکی فوج کے سب سے بڑے اڈے عین الاسد پر داغے۔ اس کے علاوہ عراق کے کردستان خطے کے دارالحکومت اربیل میں ایک اڈے پر بھی حملہ کیا گیا۔قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ہمسایہ ممالک پر ایران کے میزائل حملوں کی شدت میں اضافہ دیکھا گیا۔مارچ 2022 میں اسلامی انقلابی گارڈ کور نے بزکریم برزنجی کے ملکیتی مکان پر 12 فاتح، 110 بیلسٹک میزائل فائر کیے جس کے بارے میں ایران کا دعویٰ تھا کہ یہ کردستان کے علاقے میں اسرائیل کے ’سٹریٹیجک مراکز‘ میں سے ایک تھا۔

اگلے برس پاسداران انقلاب کی فضائیہ نے ربیع 1 اور ربیع 2 نامی کارروائیوں میں عراقی کردستان میں ایرانی کرد پارٹیوں کے ہیڈکوارٹر پر فتح 360 میزائلوں سے حملہ کیا۔جنوری 2024 میں آئی آر جی سی نے ایک بار پھر عراقی کرد تاجر کے مکان پر حملہ کیا جسے اس نے موساد کا ہیڈکوارٹر قرار دیا تھا اور ساتھ ہی ادلب میں داعش اور حزب الترکستانی کے اڈوں پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔26 جنوری 2024 کو اسلامی انقلابی گارڈ کور کی فضائیہ نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں جیش العدل گروپ کے مرکز پر میزائل سے حملہ کیا جس کے اگلے ہی دن پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں کئی مقامات پر میزائل داغے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی ملک نے ایران کے میزائل حملوں پر براہ راست ردِعمل ظاہر کیا تھا۔

دمشق میں ایران کے قونصل خانے کی عمارت پر اسرائیلی میزائل حملے میں ایرانی جرنیل محمد رضا زاہدی اور آئی آر جی سی کے چھ دیگر افسران کی ہلاکت کے بعد ایران نے ’وحدۃ الصادق‘ نامی آپریشن کے دوران سینکڑوں ڈرونز اور کروز اور بیلسٹک میزائلوں سے اسرائیل میں مختلف مقامات پر حملہ کیا۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں گولان کی پہاڑیوں میں نوواتیم فضائی اڈے اور سیری ہرمون بیس کو نشانہ بنایا گیا۔ازاد میڈیا کی تحقیق اس سے قبل یہ ظاہر کر چکی ہے کہ ایرانی میزائلوں نے نواتیم ایئر بیس پر کم از کم دو مقامات کو نشانہ بنایا اور نقصان پہنچایا۔عالمی سلامتی کے ایک محقق ولیم ایلبرک نے میڈیا کو بتایا کہ اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے میں ہدف کو نشانہ بنانے اور درست ہدف تک پہنچنے میں ایرانی میزائلوں کی صلاحیت میں کمی کسی حد تک نظر آئی، لیکن ان کا خیال ہے کہ ایران نے اس حملے سے بہت کچھ سیکھا۔انھوں نے نہ صرف اسرائیل کی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں سیکھا بلکہ ایرانی میزائلوں کو پسپا کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ شامل دیگر ممالک کے بارے میں بہت کچھ جان لیا۔

ایران نے مختلف ہتھیاروں کے پروگراموں میں سے میزائلوں کا انتخاب ہی کیوں کیا؟

انقلابِ ایران سے پہلے ایران کا سب سے بڑا اتحادی امریکہ تھا اور زیادہ تر فوجی ہتھیار، جن میں بنیادی طور پر لڑاکا طیارے شامل تھے، امریکہ سے خریدے گئے تھے۔ایران نے 160 ’ایف فائیو‘ لڑاکا طیارے خریدے جو ان ممالک کے لیے سستے لڑاکا طیارے کے طور پر بنائے گئے تھے جو مہنگے لڑاکا طیارے نہیں خرید سکتے تھے۔ پہلوی دور حکومت میں ایران کے لیے میکڈونل ڈگلس ایف فور جنگی طیاروں کی ایک بڑی تعداد بھی خریدی گئی تھی جو آج بھی فضائی بیڑے میں موجود ہیں۔پھر شاہ ایران نے انھیں ایک نئے لڑاکا طیارے سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور 60 ایف 16 ٹام کیٹ طیارے خریدے گئے۔ اس وقت ایران مشرقِ وسطیٰ میں سب سے زیادہ جنگی طیارے رکھنے والے ممالک میں سے ایک تھا۔اسلامی انقلاب کے بعد تہران میں سفارت خانے پر حملے اور قبضے کی وجہ سے ایران اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گئے۔ اسلحے کی پابندی سمیت مختلف امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ایران کو نشانہ بنایا گیا اور چونکہ جدید ہتھیاروں اور جنگی طیاروں کا حصول ممکن نہیں تھا اور جنگ کے دوران عراق کے بیلسٹک میزائلوں نے ایران کو اندر تک نشانہ بنایا سو اس وجہ سے اس نے راکٹ پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ایسے میں ایران کے لیے میزائل پروگرام بہترین انتخاب تھا جو اسے دفاعی ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا تھا اور جنگ کی صورت میں اس کی رسائی دوسرے ممالک تک بھی ہو جاتی۔اسی وجہ سے اس وقت ایران کا میزائل پروگرام اس ملک کے جدید ترین اور اہم ترین ہتھیاروں کے پروگراموں میں شمار ہوتا ہے۔

عالمی سلامتی اور اس سے منسلک ٹیکنالوجیز کے محقق ولیم ایلبرک کہتے ہیں کہ یہ میزائل لڑاکا طیاروں کا ایک بہترین متبادل تھے جن کے لیے زیادہ تربیت اور پائلٹوں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، اور شہریوں کے لیے کم خطرہ لاحق ہوتا تھا کیونکہ انھیں داغنا آسان تھا۔انھوں نے ہمارے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’واضح طور پر، ایران اپنے طور پر میزائل تیار کر سکتا ہے اور میزائل جنگی طیاروں سے بہت سستے ہیں۔ لہٰذا، بہت سی وجوہات ہیں کہ ایران میزائلوں کی تلاش میں ہے۔نیٹو کے اسلحہ کنٹرول کے اس سابق ماہر کا کہنا ہے کہ یہ میزائل ایران کے لیے غیر ریاستی عناصر اور ایران پر انحصار کرنے والے ممالک کے ساتھ سیاسی و عسکری تعلقات کے لیے ایک انتہائی مفید ہتھیار ہے۔

جیسے جیسے ایران کا میزائلوں کے بارے میں علم اور اسلحہ خانہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے، علاقائی تنازعات اور کشیدگی کا دائرہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔اگرچہ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ایران اب تک خطے کے ممالک کے خلاف کیے جانے والے میزائل حملوں سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا ہے، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ مغرب اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کا یہ سٹریٹجک صبر کہاں تک جاتا ہے، اور دوسری طرف کیا ایران اپنے میزائل پروگرام کے بارے میں دوبارہ غور کرتے ہوئے ان کی رینج بڑھانے پر مجبور ہو گا۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے