ایران دنیا میں آزادی کا نمونہ ہے/ مسلمان ممالک کو نیٹو طرز کا اتحاد بنانا چاہیے
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اور ماہر امور خارجہ شمشاد احمد خان نےبصیر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے پہلے بھی جرات کا مظاہرہ کیا تھا۔ جب بیروت میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا تو ایران نے سبق سکھایا۔ اس طرح کی کاروائی صرف ایران کرسکتا ہے۔
بصیر میڈیا: مشرق وسطی میں اسرائیلی جارحیت اور مسلم ممالک کے موقف کے بارے میں آپ کیا تجزیہ کرتے ہیں؟
شمشاد احمد خان: غاصب اسرائیل کو بڑی طاقت کی مدد حاصل ہے۔ اسرائیل نتائج کی پروا کیے بغیر اپنی پالیسی پر گامزن ہے لیکن چنانچہ میں پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ مسئلہ اسرائیل کی ڈھٹائی اور سینہ زوری نہیں ہے بلکہ مسلم دنیا کی کمزوری اصل مسئلے کی بنیاد ہے۔ چونکہ مسلم ممالک متحد نہیں ہیں لہذا ان کے ساتھ یہی ہونا ہے۔ اسلام کا پیغام امن ہے لیکن مسلم ممالک نے خصوصا دوسری عالمی جنگ کے بعد امن کا دور کم دیکھا ہے۔ زیادہ جنگیں مسلم ممالک میں ہوئی ہیں۔ مسلم ممالک کی سرزمینوں پر جارحیت کی گئی۔ گویا جارحیت مسلم دنیا کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ مشرق وسطی کے کئی ممالک میں امریکہ کے اڈے موجود ہیں۔ ان کی موجودگی میں اختلافات ختم کرنا اور طاقتور بننا کیسے ممکن ہے؟ کچھ مسلم ممالک پراکسی وار کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ کشمیر، فلسطین، عراق، شام، افغانستان وغیرہ میں مسلمان بالکل بے یار و مددگار ہیں۔ ان سب کی وجہ مسلمان ممالک کے باہمی اختلافات ہیں لہذا اس کو ختم کرنا ہوگا۔
بصیر میڈیا: ایران کی طرف سے اسرائیل پر میزائل حملے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
شمشاد احمد خان: دیکھیں ایران مسلم دنیا کا واحد آزاد ملک ہے جس پر کبھی کسی نے قبضہ نہیں کیا۔ ایران دنیا میں آزادی کا نمونہ ہے۔ ماضی میں بڑی طاقتیں ایران سے خوف کھاتی تھیں۔ ایران نے پہلے بھی جرائت کا مظاہرہ کیا تھا۔ جب بیروت میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا تو ایران نے سبق سکھایا۔ اس طرح کی کاروائی صرف ایران کرسکتا ہے۔ یہ کاروائی اس وقت کامیاب رہے گی جب پوری مسلم دنیا ایران کا ساتھ دے۔ مسلم دنیا کا اتحاد واحد حل ہے۔ آٹھ اسلامی اگر اکٹھے ہوجائیں اور نیٹو کے طرز پر اتحاد بناکر اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ نمٹ لیں تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے جن میں ایران، پاکستان، سعودی عرب، مصر، نائیجیریا، ترکی، ملائشیا اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ اگر یہ آٹھ ممالک ایک معاہدے کے ذریعے اکٹھے ہوجائیں اور مسلم دنیا کے مفادات کے تحت کام کریں تو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔