جنرل اسمبلی کا اجلاس: ’یوکرین اور غزہ سے متعلق مغربی ممالک کے نظریات میں تضاد انتہائی واضح تھا‘
تضاد انتہائی واضح تھا۔ گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنی الوداعی تقریر کی جہاں انہوں نے فخریہ انداز میں بتایا کہ انہوں نے روسی جارحیت کے خلاف یوکرین اور اس کے عوام کا کیسے دفاع کیا۔ لیکن جب بات مشرق وسطیٰ کی آتی ہے تو ان کی پالیسیز میں تضاد نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔
جارحیت اور جبر کا سامنا کرتے فلسطینی عوام کے لیے جو بائیڈن نے کسی قسم کی تشویش کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس کے بجائے اسرائیل کو مظلوم کے طور پر دکھایا۔ انہوں نے عالمی ممالک پر زور دیا کہ وہ جنگ جیتنے کے لیے یوکرین کی مدد کریں اور کہا کہ جب تک اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق دیرپا امن کے قیام تک، اس وقت تک امریکا کبھی بھی اس معاملے پر ’آنکھ بند‘ نہیں کرے گا۔
مشرق وسطیٰ کی بات آئی تو جو بائیڈن نے 7 اکتوبر کی ہولناکیوں اور حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے افراد پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جبکہ اسرائیل کی ایک سال سے جاری غزہ جنگ سے ہونے والی شہادتوں اور تباہی پر انہوں نے بہت کم بات کی۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی بار بار خلاف ورزی کی لیکن اس کے باوجود جو بائیڈن نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
جو بائیڈن نے غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت پر بات کی اور خطے میں بڑی جنگ سے اجتناب برتنے سے متعلق بیان دیا۔ لیکن ان کا یہ بیان محض لفاظی لگا کیونکہ ان کی انتظامیہ گزشتہ مہینوں سے مشرق وسطیٰ تنازع میں جو کردار ادا کررہی ہے وہ سب سے سامنے ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قراردادوں کو امریکا نے جس طرح ویٹو کیا اور اسرائیل کو بلاتعطل ہتھیاروں کی فراہمی سے امریکا کا اس جنگ میں کردار ثابت ہوچکا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں واشنگٹن نے اسرائیل کو 12 ارب ڈالرز سے زائد کے ہتھیاروں کی فراہمی کی اور اپنی افواج کو بھی خطے میں تعینات کیا تاکہ وہ ’اسرائیل کی حفاظت‘ کرسکے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل نے امریکا کی جانب سے 8.7 ارب ڈالرز کی اضافی امداد وصول کی۔
گزشتہ 11 ماہ میں بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیلی بمباری اور فوجی جارحیت سے شہید ہونے والے ہزاروں مظلوم بےگناہ فلسطینیوں (شہدا کی تعداد 41 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے) کے بارے میں انتہائی شاذو نادر ہی اپنے لب کھولے۔ انہوں نے کبھی بھی ہسپتالوں اور طبی عملے پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت نہیں کی جبکہ امریکی سرکاری ترجمان اکثر ان حملوں کے بارے میں میڈیا کے سوالات پر بھڑک اٹھتے ہیں جو بلاشبہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔
امریکا کے اس مؤقف نے اسرائیل کو اپنے مظالم جاری رکھنے کا لائسنس دے دیا ہے۔ اسے حوصلہ ملا ہے کہ وہ غزہ میں نسل کشی جاری رکھے جبکہ وہ سلامتی کونسل کی انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفے، غزہ میں امداد کے داخلے کی اجازت جیسے مطالبات کو بھی نظر انداز کررہا ہے۔ اس نے عالمی عدالت برائے انصاف کے احکامات کو بھی نظر انداز کیا۔اسرائیل نہ صرف نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ وہ مغربی کنارے پر اپنی کارروائیوں کا دائرہ کار بھی بڑھا چکا ہے۔ اس نے حماس اور حزب اللہ کے کمانڈران کو شہید کیا بلکہ لبنان میں اپنی کارروائیاں مزید تیز کردی ہیں۔
اسرائیل نے لبنان میں جب پیجرز حملے کیے تب واشنگٹن اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے چپ سادھ لی گئی۔ اگر اسرائیل کے بجائے کوئی اور ملک ایسی کوئی کارروائی کرتا تو مغرب یقیناً اسے دہشت گردی قرار دیتا۔ یہ واضح طور پر دہشت گردی ہی تھی۔ اسرائیل نے مغربی کنارے میں اپنے وحشیانہ حملوں کا سلسلہ تیز کیا جس کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکت ہوئی اور انفرااسٹرکچر کو انتہائی سنگین نقصان پہنچا۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے جو بائیڈن انتظامیہ کی کمزور پوزیشن اور امریکی سیاسی توجہ انتخابات پر ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزادانہ کارروائیاں کیں جبکہ علاقائی جنگ کے خطرے کے حوالے سے واشنگٹن کی تنبیہات کو نظر انداز کیا۔
بنیامن نیتن یاہو کو یہ بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ امریکا اسرائیل کو روکنے کے لیے اپنے اختیارات (جیسے ہتھاروں کی فراہمی معطل کرنا) کا استعمال نہیں کرے گا بالخصوص تب کہ جب وہ اسرائیل کے ’دفاع کے حق‘ کو جواز بنا کر اس کی حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کے معاہدے کے لیے امریکا نے بہت تاخیر سے کوشش کی لیکن اس نے اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالا جس نے اسرائیلی حکومت کو اتنا وقت دے دیا کہ وہ امن کی کوششوں کی آڑ میں اپنی وحشیانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے۔بنیامن نیتن یاہو نے جنگ بندی یا امن معاہدے پر کسی طرح کی دلچسپی ظاہر نہیں کی کیونکہ ان کی سیاسی بقا کا دارومدار ہی جنگ جاری رکھنے پر ہے۔ انہیں کرپشن الزامات کا سامنا ہے۔ بنیامن نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں جنگ بندی کے عالمی مطالبات کو مسترد کردیا۔
تاہم بائیڈن انتظامیہ میں موجود چند حلقے اسرائیل کے اس غلط گمان سے اتفاق کرنے لگے ہیں کہ تشدد اور جبر کے زیادہ استعمال سے امن ممکن ہے۔ اسرائیل نے اپنے اس دعوے کو تنازعہ کا ’نیا مرحلہ‘ قرار دیا ہے۔ اسی بنا پر تل ابیب نے لبنان پر متعدد فضائی حملے کیے جنہیں حالیہ دہائیوں کی سب سے بڑی کارروائی بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان حملوں میں 700 افراد شہید ہوئے۔ ان حملوں کے بعد سے بڑی جنگ کے خطرات بڑھ چکے ہیں جوکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ کے اتحادی ایران کا مؤقف انتہائی اہم ہوگا۔ اب تک ایران نے تحمل سے کام لیا ہے۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اسرائیل کے بھڑکانے کے باوجود جنگ کا حصہ بننے سے گریز کیا ہے۔ اپنی سرزمین پر حماس کے سربراہ اسمعٰیل ہنیہ کے قتل کے بعد بھی انہوں نے جوابی کارروائی کا حکم نہیں دیا۔نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے مسعود پزشکیان نے کہا کہ اسرائیل ان کے ملک کو اس جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کررہا ہے کہ جس میں شامل ہونے کی اس کی کوئی خواہش نہیں۔ تاہم اسرائیل جس نے لبنان پر زمینی حملے کے لیے اپنی افواج کو تیار کیا ہے، ایک اور ریڈ لائن عبور کرنے پر ایران کارروائی کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔
گلوبل ساؤتھ کے ممالک جو مغربی ممالک کی حکومتوں کی طرح منافقت اور دوہرے معیار نہیں رکھتے، ان کی جانب سے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت کی گئی۔ اسپین، ناروے اور آئرلینڈ جیسے مغربی ممالک کے علاوہ دیکھا جائے تو بیشتر مغربی ممالک نے اسرائیل کی اندھی حمایت میں بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کیا۔وہ یوکرین میں روسی افواج کی جارحیت اور شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہیں لیکن غزہ کے معاملے میں ان کے نظریات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ وہ خود سے کبھی یہ سوال نہیں پوچھتے کہ بےگناہ شہریوں کو نشانہ بنانے، بچوں کو مارنے، ہسپتالوں پر بمباری، لوگوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کرنے اور غزہ کی آبادی کو خوراک سے محروم رکھنے کا آخر کیا جواز ہوسکتا ہے؟
اس کے بجائے وہ بار بار اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے کا منتر پڑھتے ہیں کہ گویا جیسے یہ اسرائیل کو ہر بین الاقوامی قانون کو توڑنے، جنگ جرائم کا ارتکاب، ممالک کی خودمختاری پر حملہ اور پوری قوم کو صفہ ہستی سے مٹانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس روش سے اسرائیل محفوظ نہیں ہوگا بلکہ اس کے دشمنوں میں اضافہ ہوگا اور وقت کے ساتھ ساتھ قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت مضبوط ہوگی۔عرب حکومتوں نے اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی سے روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے صرف مذمتی بیانات جاری کیے۔ عرب ممالک کی جانب سے کسی قسم کی کارروائی نہیں کیے جانے کی صورت میں اسرائیل کو اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا حوصلہ ملا ہے۔
مشرق وسطیٰ اس وقت انتہائی نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اسرائیلی کارروائیوں نے خطے کو ایک وسیع جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ فلسطین کے نڈر لوگوں کی اذیت ناک تاریخ کا یہ تاریک ترین باب ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ سخت حالات کا سامنا کرنے کے باوجود قابض قوت کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ کبھی تھما نہیں۔