داعش کے ’اہم جنگجوؤں کی گرفتاری‘ کے بعد افغان طالبان کا پاکستان پر الزام

376304-576735125.jpg

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت نے ملک بھر میں حالیہ حملوں میں ملوث ’داعش کے اہم ارکان‘ کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے پاکستان پر اس تنظیم کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال میں عمومی طور پر بہتری آئی ہے تاہم داعش کی علاقائی شاخ ’دولت اسلامیہ خراسان‘ ان کی حکمرانی کے لیے اہم چیلنج بن کر ابھری ہے جنہوں نے رواں سال موسم گرما میں کئی مہلک حملے کیے۔طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ان کی ’سپیشل فورسز‘ نے ’باغی گروپ‘ (داعش) کے اہم ارکان کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے گذشتہ ماہ کابل میں ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی جس میں چھ افراد مارے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مبینہ خودکش حملہ آور پاکستان میں تربیتی کیمپ سے ٹریننگ لے کر ’افغانستان میں داخل ہوئے‘ جب کہ معتدد چھاپوں میں گرفتار کیے گئے دیگر افراد بھی حال ہی میں ’پاکستان سے واپس آئے تھے۔ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ان کے کریک ڈاؤن سے داعش گروپ کو افغانستان سے بے دخل کر دیا گیا ہے لیکن انہوں نے پاکستان میں ’نئے آپریشنل اڈے اور تربیتی کیمپ قائم کر لیے ہیں۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’ان نئے اڈوں سے وہ افغانستان کے اندر اور دوسرے ممالک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔طالبان کے ان تبصروں سے کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے، جو افغان طالبان کی واپسی کے بعد سے متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستان اپنی سرزمین پر بڑھتے ہوئے حملوں کا الزام افغانستان پر عائد کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ طالبان کی حکومت وہاں مقیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔پاکستان کی وزارت خارجہ نے ذبیح مجاہد کے بیان پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔پاکستان، چین، ایران اور روس نے گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں ’افغانستان میں دہشت گردی اور سکیورٹی کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔اس چار فریقی گروپ نے داعش اور ٹی ٹی پی سمیت کئی عسکریت پسند گروہوں کا ذکر کیا، جو افغانستان میں مقیم ہیں اور علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔

داعش خراسان کی بنیاد 2015 میں رکھی گئی تھی اور یہ اگست 2021 میں کابل ایئرپورٹ سے امریکہ کے انخلا کے دوران ہونے والے ایک بم دھماکے سے منظر عام پر آئی، جس میں تقریباً 170 افغان اور 13 امریکی فوجی مارے گئے تھے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ گروپ مزید بین الاقوامی حملوں کا ذمہ دار ہے، جس میں ماسکو کے ایک کنسرٹ ہال میں 140 سے زیادہ افراد کی اموات اور ایران میں دو بم دھماکے بھی شامل ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔