حسن نصر اللہ کی شہادت: کیا خطے میں اسرائیل کا سب سے طاقتور حریف حزب اللہ کمزور پڑ چکا ہے؟
چاہے اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو شہید کردیا ہو لیکن فلسطین پر اس کے حملے، غزہ میں جاری نسل کشی اور لبنان کے خلاف عسکری جارحیت کے حوالے سے دنیا کیا سوچتی ہے، وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں واضح ہوگیا۔جیسے ہی اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے روسٹرم پر پہنچے، بین الاقوامی وفود کی بڑی تعداد نے اجلاس سے واک آؤٹ کردیا اور ان کی فریب پر مبنی تقریر پر صرف گیلریز میں بیٹھے افراد نے تالیاں بجائیں۔ اسرائیلی وفد نے یقینی بنایا تھا کہ گیلری کو نسل کشی کی حمایت کرنے والے افراد سے بھر دیا جائے۔
ایک تبصرہ نگار نے امریکی کانگریس میں بنیامن نیتن یاہو کے حالیہ خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’لگتا ہے کہ گیلریز میں امریکی کانگریس کے اراکین براجمان ہیں‘، کیونکہ اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے رہنما کے خطاب کے دوران کانگریس متعدد بار تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔سب سے زیادہ شرمناک لمحہ وہ تھا کہ جب نیتن یاہو ’دہشت گردی‘ ختم کرنے کے حوالے سے بات کررہے تھے اور پھر اپنے شراکت داروں جیسے سعودی عرب کے ساتھ پُرامن خطہ بنانے کے لیے کوششیں کرنے کا ذکر کیا۔ اس بیان پر کیمرے کا رخ اس جانب ہوا کہ جہاں سعودی عرب لکھا ہوا تھا لیکن وہاں تمام نشستیں خالی تھیں کیونکہ سعودی وفد واک آؤٹ کرچکا تھا۔عرب دنیا کے بڑے بڑے ناموں کا غزہ اور مغربی کنارے اور اب لبنانی مسلمانوں پر اسرائیل کی جارحیت روکنے میں کردار انتہائی ناقص ہے کیونکہ وہ امریکا اور اسرائیل کی حمایت کرنے والے دیگر مغربی ممالک پر دباؤ ڈالنے میں ناکام ہیں۔ واک آؤٹ سے عرب ممالک کے عام لوگوں کے فلسطینی مسلمانوں کے لیے جذبات کی جھلک نظر آئی۔
یہ سطریں میں نے لکھی ہی تھیں کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ جمعے کے روز لبنان کے دارالحکومت بیروت کے ایک محلے میں واقع 6 اپارٹمنٹس بلاکس جنہیں حزب اللہ کا گڑھ مانا جاتا تھا، بڑے پیمانے پر بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ شہید ہوگئے۔ بعدازاں حزب اللہ کی جانب سے شہادت کی تصدیق کردی گئی۔حزب اللہ مشرق وسطیٰ کی واحد قوت ہے جس نے گزشتہ 50 سالوں میں کامیابی سے اسرائیلی فوج کا مقابلہ کیا ہے اور 2006ء کے تنازع میں حزب اللہ نے مضبوط حریف اسرائیل کو پسپا کردیا تھا۔ اس نے حزب اللہ کی تحریک کو تقویت بخشی اور اس کے سربراہ حسن نصر اللہ کو عرب اور اس سے سے باہر اقوامِ عالم کی مقبول ترین شخصیات میں سے ایک بنا دیا۔اپنے اور مغربی اتحادیوں کے وسائل کے وسیع استعمال سے واضح ہے کہ اسرائیل 2006ء سے آج تک حزب اللہ جو نصف صدی سے اس کے خلاف کھڑی ہونے والی اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والی واحد قوت ہے، کو پسپا کرنے کی راہیں تلاش کررہا تھا اور انہیں کمزور کرنے کی سازشیں رچ رہا تھا۔
اسرائیل کے نظریے کو اس وقت مزید تقویت ملی ہوگی کہ جب حزب اللہ اور دیگر ایران کے اتحادیوں نے شام کی حکومت کے ساتھ مل کر داعش کا مقابلہ کیا تھا جوکہ شام پر قابض ہونا چاہتی تھی لیکن مشترکہ کوششوں سے داعش کو روک دیا گیا۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اچانک سے منظر پر آنے والا یہ انتہاپسند گروپ یعنی داعش یا تو اسرائیلی انٹیلی جنس کی پیداوار تھا یا پھر اسے کم از کم اسرائیل کی بھرپور حمایت ضرور حاصل رہی ہوگی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حزب اللہ سمیت ایران، یمن اور شام کے مزاحمتی گروہ، شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن حزب اللہ غزہ میں سنی حماس تحریک کی حمایت کرنے والا واحد عسکری گروپ ہے۔ شاید اسی اتحاد کی وجہ سے خلیجی دنیا کی سلطنتیں، امارات اور امریکا کے حمایت یافتہ مصر کی قیادت غزہ کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کی خاطر خواہ امداد میں ہچکچاتے ہیں۔
اسرائیل جو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات کا خواہاں ہے، اس کے مصر اور اردن کے ساتھ بھی قریبی سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں، ایسے میں اسرائیل کے لیے ضروری تھا کہ وہ مزاحمتی گروہوں کے اتحاد کو کمزور کرے یا اگر ممکن ہوسکے تو انہیں تباہ کردے۔ یہ مزاحمت اسرائیل کی فلسطین کی زمین پر قبضے اور آبادکاری کی کوششوں میں رکاوٹ بن رہی ہے جبکہ لبنان و شام میں شیبا فارمز اور گولان ہائٹس جیسے غیرقانونی مقبوضہ علاقوں میں اسے مشکلات کا سامنا تھا۔اس پس منظر میں واضح ہوتا ہے کہ پیجرز، واکی ٹاکی دھماکوں سے لے کر حسن نصراللہ اور حزب اللہ کے دیگر رہنماؤں کی شہادت کو اسرائیل اپنی بڑی فتح کیوں قرار دے رہا ہے۔ لیکن کیا یہ خودساختہ کامیابی کے تمغات کی بدولت اسرائیل اپنی عوام کو وہ سلامتی و امن فراہم کرپائے گا جس کا وہ دعویٰ کرتا ہے اور جو دہائیوں سے اس کے ایجنڈے کا حصہ ہے؟
1992ء میں جنوبی لبنان میں ہیلی کاپٹر گن شپ حملے کہ جس میں حزب اللہ کے رہنما عباس الموسوی (جن کے بعد حسن نصراللہ نے قیادت سنبھالی)، ان کی اہلیہ اور پانچ سالہ بیٹے شہید ہوئے، سے لے کر 2004ء میں وہیل چیئر تک محصور حماس کے نابینا رہنما شیخ احمد یاسین کے قتل تک، غزہ، مغربی کنارے، لبنان اور یہاں تک کہ تنازعہ کی زد سے باہر کے ممالک میں مزاحمتی تنظیموں کے بہت سے رہنماؤں کے ’ٹارگٹڈ قتل‘ ہوئے۔لیکن کیا ان ’کامیابیوں‘ سے اسرائیل کو امن اور سلامتی حاصل ہوئی؟ اس کا جواب ایک زبردست نہ میں ہونا چاہیے۔ لیکن اسرائیل صرف اس لیے اب بھی اپنے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ ’آزاد دنیا‘ کے علمبردار جیسے امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور دیگر مغربی ممالک کے سربراہان نے فیصلہ کرلیا ہے کہ خطے میں اسرائیل ان کا سب سے اہم اتحادی ہے اور چاہے وہ جو بھی کرے وہ مداخلت نہیں کریں گے۔
انہوں نے اسرائیل کی فوجی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے سیکڑوں ارب ڈالرز خرچ کیے ہیں اور غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ میری نظر میں اس کی تین اہم وجوہات ہیں۔سب سے پہلے ہولوکاسٹ جس میں نفسیاتی ایڈولف ہٹلر نے جرمنی، پولینڈ اور یورپ کے دیگر ممالک میں 50 سے 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کردیا تھا جس میں امریکا اور برطانیہ خاموش تماشائی بنے رہے، اس کے ازالے کے لیے وہ اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔دوسری وجہ مشرق وسطیٰ کا یہ اتحادی ہے ان کی اپنی اقدار کی عکاسی کرتا ہے جن میں نوآبادیات بھی شامل ہے۔
تیسری وجہ امریکی اسرائیلی پبلک افیئرز کمیٹی اور دیگر اسرائیلی دولت مند لوگوں کی جانب سے انتخابی مہم میں امریکی سیاستدانوں کو ملنے والی امداد ہے۔ امریکا کی طرح برطانیہ میں بھی کنزرویٹو فرینڈز آف اسرائیل اور لیبر فرینڈز آف اسرائیل نامی تنظیم ہے۔ ان ’جمہوریتوں‘ میں فنڈنگ کی وجہ سے حقیقی طور پر منتخب کردہ افراد پر سمجھوتہ کرلیا جاتا ہے۔امید ہے کہ کسی دن ان کے ووٹرز پوچھیں گے کہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت سے آخر انہیں کیا حاصل ہوا۔ شیخ یاسین سے لے کر خالد مشعل، اسمعٰیل ہنیہ جیسے لیڈران اور موجودہ رہنما یحییٰ سنوار تک، فلسطینیوں میں آزادی کا جذبہ اب بھی زندہ ہے۔اس صدمے کے بعد حزب اللہ کو قیادت کے لیے نصر اللہ کے کزن ہاشم صفی الدین جیسا کوئی شخص مل جائے گا جن کے بیٹے کی شادی پاسدارانِ انقلاب کے شہید کمانڈر قاسم سلیمانی کی بیٹی سے ہوئی ہے۔ حزب اللہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی۔اسرائیل کی فائر پاور (ہتھیاروں سے تباہی مچانے کی صلاحیت) بلاشبہ خوفناک ہے لیکن سب کو اس بات کا ادراک بھی ہونا چاہیے کہ مزاحمت کرنے والوں کے حوصلے بھی اتنے ہی بلند ہیں۔