تربت سے گرفتار ” خاتون خودکش بمببار ” کے اہم انکشاف
بلوچستان حکومت کے زیر انتظام ایک پریس کانفرنس میں بدھ کو تربت سے گرفتار ہونے والی ممکنہ خودکش حملہ آور خاتون عدیلہ بلوچ نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح انہیں ایک علیحدگی پسند بلوچ تنظیم نے ’ورغلا‘ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی، تاہم سکیورٹی اداروں نے انہیں بازیاب کروا کر بچا لیا۔بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند، صوبائی رکن اسمبلی فرح عظیم شاہ اور اپنے والدین کے ہمراہ کسی نامعلوم مقام پر گفتگو کرتے ہوئے، جسے سرکاری ٹی وی نے نشر کیا، عدیلہ بلوچ نے بتایا کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم تربت میں حاصل کی اور پھر کوئٹہ بی ایم سی ایچ سے نرسنگ کا کورس کیا اور وہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ساتھ بھی ایک پروجیکٹ کر رہی ہیں۔
عدیلہ نے بتایا: ’میں بدقسمتی سے ایسے لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھی، جنہوں نے مجھے بہکایا اور میں خودکش حملے کے لیے راضی ہوگئی۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ اس سے کتنے لوگوں کی جان چلی جائے گی۔عدیلہ کے مطابق وہ تین دن پہاڑوں میں رہیں اور وہاں انہوں نے دیگر نوجوانوں کے ساتھ ایک اور خاتون بھی دیکھیں جبکہ وہاں ہر کسی کا ایک ’کوڈ نام‘ ہوتا تھا۔بقول عدیلہ: ’بلوچ خواتین اپنی مرضی سے نہیں جاتیں، انہیں بلیک میلنگ کرکے، ورغلا کر لے جایا جاتا ہے۔ مجھے اس طرح بہکایا گیا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا اور اب میں بچ گئی ہوں۔پریس کانفرنس کے دوران آبدیدہ لہجے میں عدیلہ نے بتایا: ’شاید میں ایک ذریعہ ہوں کہ جو لوگ وہاں ہیں (وہ بھی کسی طرح بچ سکیں)۔ میں شکرگزار ہوں حکومت بلوچستان کی کہ میں ان کا شکار ہونے سے بچ گئی۔ میں یہ نصیحت دینا چاہتی ہوں کہ اس طرح کے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں، یہ لوگ اپنی مرضی سے لوگوں کو استعال کرتے ہیں۔
عدیلہ کی گفتگو سے قبل ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے بتایا تھا کہ 16 ستمبر کو ایک شخص نے رابطہ کیا کہ ان کی بیٹی لاپتہ ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ لاپتہ عدیلہ بلوچ نامی خاتون ایک نرس ہیں۔پریس کانفرنس کے دوران عدیلہ بلوچ کے والد نے بھی گفتگو کی اور بتایا کہ وہ کراچی میں ایک بینک میں ملازمت کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا: ’میں نے اپنی تنخواہ سےگھر کو بھی چلایا اور بچوں کو بھی پڑھایا۔ میری بیٹی نے مجھے کہا کہ میں ڈاکٹری کروں گی، مجھے پتہ تھا کہ وہ قابل ہیں، میری محنت اور ان کے حوصلے سے یہ کامیاب ہوئیں۔ ہماری ایک چھوٹی سی دنیا تھی لیکن اچانک یہ حادثہ ہوگیا۔میں کراچی میں تھا جب مجھے پتہ چلا کہ بیٹی لاپتہ ہے، جب گھر گیا تو پتہ چلا کہ کچھ لوگ ان کو ورغلا کر خودکش حملہ کرنے کے لیے پہاڑوں پر لے گئے، وہاں سے واپسی ناممکن ہے۔میری سمجھ میں یہی آیا کہ صرف حکومت کے پاس جانا چاہیے، اس لیے میں نے بلوچستان حکومت سے رابطہ کیا اور بتایا کہ اطلاعات کے مطابق (میری بیٹی) ان کے قبضے میں ہے، اگر کل کو (وہ لوگ) انہیں بم باندھیں تو آپ میرے گلے پڑیں گے۔۔۔ (جس کے بعد) بروقت کارروائی کرکے انہیں بازیاب کروایا گیا۔انہوں نے بتایا کہ ’ہم اپنی مرضی سے (پریس کانفرنس کے لیے) آئے ہیں، یہ بتانے کے لیے کہ ہم نے کوشش کی۔ جو لوگ وہاں موجود ہیں، وہ صرف سرکار کی مدد سے ہی بچ سکتے ہیں۔
عدیلہ بلوچ کے والد نے پہاڑوں پر موجود لوگوں کو پیغام دیا کہ ’وہ بھی بلوچ ہیں اور ہم بھی بلوچ ہیں۔ ایک بلوچ دوسرے بلوچ کی بیٹی کو اٹھا کر لے جائے اپنے مقاصد کے لیے، ہم نے یہ سب اس لیے تو نہیں کیا، اس لیے تو انہیں نہیں پڑھایا لکھایا کہ انہں بم باندھ کر ضائع کر دیا جائے۔ساتھ ہی انہوں نے دیگر والدین کو بھی نصیحت کی وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں