بلوچستان میں بڑھتی یورش کا حل کیا ؟

185ffaf0-729d-11ef-b282-4535eb84fe4b.jpg

بلوچستان اب ریاست کی گرفت سے نکل چکا ہے۔۔۔‘ تربت کے سلیم نے یہ جملہ فدا چوک پر مجھ سے بات کرتے ہوئے ادا کیا لیکن کیا یہ صرف سلیم کی اپنی سوچ ہے یا پھر بلوچستان میں پاکستان کی ریاست کی رٹ واقعی کمزور ہو رہی ہے؟ یہی وہ سوال تھا جو مجھے تربت تک لے کر آیا تھا لیکن وہی شہر جہاں سال کے آغاز میں عام انتخابات کے وقت لوگ کھل کر بات کر رہے تھے، وہاں اب کی بار خوف کی فضا تھی اور لوگ بات کرنے سے کترا رہے تھے۔اس خوف کی وجہ تقریباً 20 دن قبل بلوچستان کے 11 اضلاع میں مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی پر ہونے والے حملے تھے۔ان حملوں میں صوبائی حکومت کے مطابق 38 عام شہری، 21 شدت پسند اور 14 سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد وہ سوال اٹھا تھا جس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمارے نمائندہ نے بلوچستان کے مکران خطے کے اہم شہر تربت کا رخ کیا۔

نمائندہ  نے مقامی لوگوں، بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ بلوچستان میں حکومت کی گرفت کیا واقعی کمزور ہو رہی ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اور کیا مذاکرات سے بلوچستان کے مسائل کا حل ممکن ہے؟ اس ضمن میں نمائندہ نے بلوچستان کی صوبائی حکومت سے بھی رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تربت کا فدا چوک اور ماہ رنگ بلوچ

سلیم ( فرضی نام)  نے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے بلوچستان میں حالات کی خرابی کا ذمہ دار ریاست کو قرار دیا۔ہم لوگ نہیں چاہتے کہ ہم اپنے حالات خود خراب کریں۔ ہمیں کاروبار کرنے دیا جائے۔ ہماری زندگی میں مداخلت بند کی جائے، ہمیں خاموشی سے کام کرنے دیا جائے۔گلزار دوست نامی ایک اور شہری اور انسانی حقوق کے کارکن نے کہا کہ ’ریاست بلوچ نفسیات کو نہیں سمجھتی۔ وہ بلوچستان کو ایک کالونی کی طرح چلانا چاہتے ہیں۔ ان کو صرف یہاں کے وسائل چاہئیں، انھیں نہ ہی ہماری ثقافت کا پتا ہے اور نہ ہی تہذیب کا۔یہ سمجھتے ہیں بندوق کے زور پر ہم پر حکمرانی کریں گے جو کہ ان کی کم عقلی ہے۔ مکران میں ان کی رِٹ کہیں نہیں۔‘

تُربت کے ایک شہری صلاح الدین سلفی نے کہا کہ ’نوجوانوں کو مشتعل کرنے والے اور اس نہج تک لانے والی ریاست ہے۔ آپ ایسی امید نہیں کر سکتے کہ آپ ہمارے گھر میں گُھس جائیں، ہم پر ظلم کریں اور پھر امید کریں کہ ہم بدلے میں کچھ نہ کریں۔تربت بلوچستان کے مکران خطے کا اہم شہر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی کافی اہمیت رکھتا ہے جہاں فدا چوک پر میری سلیم سے ملاقات ہوئی۔یہ چوک فدا احمد بلوچ کی یادگار ہے جنھوں نے 1980 کی دہائی میں بلوچ نیشنل یوتھ موومنٹ کی بنیاد رکھی تھی جو بعد میں بلوچ نیشنل موومنٹ بن کر پاکستان کی ریاست کے خلاف مزاحمت میں پیش پیش رہی۔

نومبر 2023 میں تربت کے رہائشی بالاچ کی مبینہ طور پر سی ٹی ڈی کی حراست میں ہلاکت کے بعد اسی چوک پر ایک تحریک نے جنم لیا جس کی سربراہی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کی۔
جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والی ماہ رنگ بلوچ اب تربت سے گوادر تک ایک جانی مانی شخصیت ہیں جس کا ثبوت تُربت کے بازاروں میں عیاں تھا۔ڈاکٹر ماہ رنگ کا چہرہ گاڑیوں کی وِنڈ سکرین، موٹر سائیکل کی رجسٹریشن پلیٹ، ٹی شرٹ حتیٰ کہ منھ پر پہنے جانے والے ماسک پر بھی نظر آئے گا۔

نمائندہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ’آج ہمیں ہزاروں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ ہم نے حال ہی میں ایسی لاشیں بھی اٹھائی ہیں جن کی آنکھیں نکالی گئیں۔ یہ ریاست کا وہ حربہ ہے جو نہیں بدل رہا اور اس سے بد اعتمادی پیدا ہو رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچ عوام کو وہ پلیٹ فارم نہیں دیا گیا جہاں ہم اپنے مسائل کی نشاندہی کر سکیں لیکن ہماری تحریک سے ہماری کوشش ہے کہ سیاسی مزاحمت کے ذریعے ہم اپنے مسائل کی نشاندہی کریں اور عوام کے بنیادی مسائل حل کریں۔ماضی میں حکومت پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر بلوچ کارکنان کے ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔ حال ہی میں حکومت بلوچستان نے ماہ رنگ بلوچ پر گوادر میں احتجاج کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں، چینی سرگرمیوں اور سی پیک کے دوسرے مرحلے کے آغاز کو روکنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔یہ بیان رواں برس جولائی میں ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے گوادر میں بلوچ راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس دوران مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی دیکھنے میں آئی تھیں۔ اس معاملے پر پاکستانی فوج نے کہا تھا کہ بلوچ راجی مچی میں شریک افراد کے تشدد سے ایک سپاہی ہلاک اور دیگر 17 اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

مکران کا خطہ، مزاحمت کی تاریخ اور حالیہ شدت پسندی

ہر صوبے کی ہی طرح بلوچستان کا پورا صوبہ ایک سا نہیں اور نہ ہی وہاں رہنے والے۔ مثلاً مکران، جہاں گوادر کی بندرگاہ واقع ہے، وہاں کے لوگوں کے تحفظات اور مطالبات، مشرقی بلوچستان کے قبائل سے، جہاں قدرتی گیس اور کوئلے کے وسائل وافر مقدار میں ہیں، مختلف ہیں۔مشرقی حصے کے برعکس ساحلی علاقے پر قبائلی سرداروں کا غلبہ نہیں۔ یہ باقی صوبے کے مقابلے میں کم قبائلی، بہتر تعلیم یافتہ، زیادہ مڈل کلاس اور سیاسی طور پر آگاہ ہے۔تجزیہ کار اور ڈیلی انتخاب کے ایڈیٹر انور ساجدی کہتے ہیں کہ ’بلوچستان میں پہلی مزاحمت 600 سال پہلے پرتگالیوں کے دور میں مکران سے ہی شروع ہوئی تھی۔ اٹھارویں صدی میں ریاستِ قلات نے مکران پر قبضہ کیا تب بھی عوام نے مزاحمت کی۔واضح رہے کہ بلوچستان کا مکران کا خطہ ساحل کے ساتھ ساتھ ایران تک جاتا ہے اور انور ساجدی بتاتے ہیں کہ ’تاریخ کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اس خطے کے لوگ کبھی کسی کے تابع نہیں رہے، اس علاقے میں سرداری نظام نہیں رہا جس کی ایک بڑی وجہ یہاں کے شہریوں کا مزاحمتی مزاج اور شرح خواندگی ہے۔انور ساجدی کہتے ہیں کہ ’مکران کی علاقائی اہمیت بہت زیادہ ہے اور آپ کے 700 کلومیٹر ساحل میں سے 600 کلومیٹر مکران میں ہے۔‘

ایک عام تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں ریاست مخالف خیالات اور واقعات چند علاقوں تک ہی محدود ہیں لیکن صحافی اسد بلوچ کے مطابق ’نواب اکبر بُگٹی کی 2006 میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں ہلاکت سے پہلے ایک یا دو اضلاع تک محدود شورش اس واقعے کے بعد صوبے بھر میں پھیل گئی۔26 اگست کو 11 اضلاع میں ہونے والے حملوں سے اسد بلوچ کی بات کو وزن ملتا ہے۔واضح رہے کہ بلوچستان میں کالعدم شدت پسند بی ایل اے کے حملوں میں شامل خواتین خودکش بمباروں کا تعلق بھی مکران کے خطے سے رہا ہے۔اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے چینی انسٹیٹیوٹ پر حملہ کرنے والی شاری بلوچ کا تعلق تُربت سے تھا جبکہ 26 اگست کو بیلہ کیمپ پر حملہ کرنے والی ماہِل بلوچ کا تعلق گوادر سے تھا۔

پاکستانی تھنک ٹینک پاکستان انسٹٹیوٹ فور کنفلکٹ اینڈ پیس سٹڈیز کے مطابق گذشتہ برس بلوچستان میں کم از کم 170 حملے ہوئے تھے، جس میں 151 شہری اور 114 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔تُربت کے مقامی افراد کے مطابق پچھلے دو سال سے مختلف مقامات پر آپریشن کیا جا رہا ہے۔ہم تُربت اور گوادر کے درمیان تلار چیک پوسٹ پر پہنچے جس کے آس پاس سائیجی نامی پہاڑی سلسلہ ہے جو بلوچستان میں شدت پسندوں کا پہلا مرکز رہا ہے۔یہ وہ ہی جگہ ہے جہاں سے اللہ نذر بلوچ نے مسلح شدت پسندی کا آغاز کیا تھا اور یہاں پر پہلا بڑا آپریشن 2006 میں ہوا تھا۔یہاں پہنچنے پر ایک پولیس اہلکار نے کہا کہ اس پہاڑ کو اس چیک پوسٹ سے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ وہاں جانے اور نکلنے والے راستوں کو بند کر دیا گیا تھا۔تُربت کی طرف آنے والے راستوں پر بھی فوج اور بم ڈسپوزل سکواڈ کی بھاری نفری کی موجودگی نمایاں تھی۔

واضح رہے کہ اگست میں ہونے والے حملوں کے بعد، جن کی ذمہ داری کالعدم بی ایل اے نے قبول کی تھی، وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’یہ تاثر دیا جاتا ہے جیسے ریاست بلوچستان میں ظلم کر رہی ہے لیکن ظلم تو یہ ہے کہ معصوم لوگوں کو بسوں سے اتار کر انتہائی بزدلانہ طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس وسائل ہیں، نیت ہے، کہ صوبہ کی حکومت سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر ایسا عمل کرنے والوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے۔بلوچستان کے ہی ایک تجزیہ کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بظاہر لگتا ہے کہ ریاست غصے میں ہے اور عسکری گروہوں کے پیچھے جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست ایسا کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اس وقت بات ہاتھ سے نکل چکی ہے۔واضح رہے کہ بی بی سی نے بارہا حکومتی ترجمان سے رابطہ کرنے کی اور حکومتی مؤقف جاننے کی کوشش کی لیکن حکومت کی جانب سے کسی قسم کا جواب نہیں دیا گیا۔

تجزیہ کار اور ڈیلی انتخاب کے ایڈیٹر انور ساجدی کا کہنا ہے کہ ’ریاست نے بلوچستان کو مِس ہینڈل کیا۔انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی ریاست بلوچستان سے ناواقف ہے۔ انھوں نے اس خطے کو ایک عام علاقہ سمجھا۔ بلوچستان حکمرانوں کے لیے ایک صوبہ ہے جبکہ بلوچستان کے لوگ صدیوں سے اسے اپنا ملک، اپنا وطن اور اپنی سرزمین سمجھتے ہیں۔ حکمرانوں کی غلطیوں کی وجہ سے بلوچستان کی اکثریت ریاست سے لاتعلق ہو گئی۔انور ساجدی نے کہا کہ ’ریاست کو قوم پرست جماعتوں کو رواں سال جنرل الیکشن میں جگہ دینی چاہیے تھی۔ اس سے یہ ہوتا کہ ایک راستہ کھلا رہتا بات چیت کا۔ اب جو خلا قوم پرست جماعتوں کو سائیڈ لائن کرنے سے سامنے آیا، وہ اب حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

تین ستمبر کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے والے بلوچ سردار اختر مینگل نے میڈیا کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا تھا کہ ’بلوچستان ریاست کی گرفت سے نکل نہیں رہا بلکہ نکل چکا۔ اب حکومت کو پہاڑوں پر موجود بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کرنے والوں سے بات کرنا ہوگی۔انھوں نے کہا کہ ’اِن سے ماہ رنگ بلوچ کا اسلام آباد پریس کلب کے سامنے چند دنوں کا پُر امن دھرنا برداشت نہیں ہوا تو وہ اور کسی کو کیا برداشت کریں گے۔ بلوچستان کو کالونی کی طرح چلانا بند کریں گے، معاملات میں مداخلت بند کریں گے، تو معاملات کا کچھ حل نکلے گا۔

کیا بلوچستان کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے؟

نمائندہ سے بات کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ’جب میں وزیرِ اعلی تھا تب میں نے عسکریت پسندوں سے بات شروع کی تھی جو بہت حد تک کامیاب رہی اور نتیجے میں سنہ 2015 سے سنہ 2017 تک کسی قسم کے حملے نہیں ہوئے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اب مجھے نہیں لگتا کہ ریاست یا ریاست سے منسلک لوگ کسی سے بھی بات کرنا چاہتے ہیں۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک مبصر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جب 26 اگست کے حملوں کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کوئٹہ آنا ہوا تب انھوں نے عبدالمالک سے کہا کہ آپ جن لوگوں سے بات کرنے کو حل سمجھتے ہیں وقافی حکومت ان سے بات نہیں کرنا چاہتی۔بلوچستان کے ہی ایک اور تجزیہ کار نے کہا کہ ’ریاست نے بیک وقت سب کو ناراض کر دیا۔ جس کی وجہ سے اب اگر چاہیں بھی تو کس سے بات کریں گے؟‘

یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے 27 اگست کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’ہمارے قوم پرست رہنما کہتے ہیں کہ مذاکرات کریں لیکن وہ ہم سے بات کرنا نہیں چاہتے، وہ بندوق کے ذریعے بات کر رہے ہیں۔ایک اور موقع پر انھوں نے کہا کہ ’کوئی ہم سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے، مین سٹریم میں آنا چاہتا ہے، دروازہ ہمیشہ کھلا ہے لیکن ریاست اپنی رٹ قائم کرے گی، اس کے لیے جو بھی اقدامات اٹھانے پڑیں گے، وہ سب لیے جائیں گے۔سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’میں خود مذاکرات کا حامی ہوں لیکن کس کے ساتھ مذاکرات کریں؟ جو ہمارے معصوم لوگوں کا قتل کر رہے ہیں، سکیورٹی فورسز کا قتل کر رہے ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے