حق دو تحریک کا سرحدی پوائنٹس کھولنے کا مطالبہ

25104736004d01d.jpg

حق دو تحریک کے سربراہ نے گوادر سے چمن تک تمام سرحدی پوائنٹس کو کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے حکام کو خبردار کیا ہے کہ اگر یہ مسئلہ حل نہ کیا گیا تو روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور خودکش بمبار بن سکتے ہیں۔نمائندہ بصیر میڈیا کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا کہ سرحد پار تجارت سے 30 لاکھ افراد کو روزگار ملتا ہے لہذا انہیں روزگار کے مواقع فراہم کیے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالحمید منصوری اور عبدالولی شاکر بھی موجود تھے۔

بلوچستان اسمبلی کے رکن مولانا ہدایت الرحمٰن نے اپیکس کمیٹی کو صوبے میں بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سرحد پار تجارت بند کرنے کا حکم دیا۔حق دو تحریک کے چیف کا کہنا تھاکہ حکومت نے اس تجارت کو اسمگلنگ قرار دیتے ہوئے بند کیا لیکن حکومت نےافغانستان اور ایران تجارت پر انحصار کرنے والے تقریباً 30 لاکھ مزدوروں کو متبادل روزگار فراہم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔حق دو تحریک کے چیف نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ لسبیلہ کے کارخانوں میں ہزاروں مزدوکام کررہے ہیں لیکن وہاں کی افرادی قوت میں مقامی افراد کی تعداد صرف 20 فیصد ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ جیسے صنعتی یونٹ بھی بلوچستان کے لوگوں کو روزگار کے بہت کم مواقع فراہم کرتے ہیں۔قانون سازکے مطابق چونکہ حکومت سالانہ صرف 5000 لوگوں کو ملازمتیں فراہم کر سکتی ہے، اس لیے ہزاروں پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں۔مولانا ہدایت الرحمٰن کا کہنا تھا کہ مزدور روزگار کے لیے خطرناک راستوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔انہوں نے مزید کہااگر حکومت ان مزدوروں کو روزگار فراہم نہیں کرسکتی تو اسے کم از کم سرحدوں کو دوبارہ کھول دینا چاہیے تاکہ ان کے روزگار کا بندوبست ہوسکے۔

انہوں نے اپیکس کمیٹی کے سرحدی تجارت سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونےکے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ حکمران اشرافیہ کو نوکریاں چھیننے کے بجائے اپنی مراعات میں کمی کرنی چاہیے۔مولانا ہدایت الرحمٰن نے ضلعی حکام پر پنجگور، گوادر اور کیچ کے سرحدی مقامات پر بھتہ خوری سے لاکھوں روپےکمانے کا الزام لگایا۔حق دو تحریک کے چیف کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ سرحد پار تجارت کے بجائے یہ غیر قانونی طریقے معیشت پر اصل بوجھ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے