لبنان پیجر بلاسٹ کیس، بھارتی شخص کا نام سامنے آ گیا

1392897_7678669_ieei_updates.jpg

لبنان میں کچھ روز قبل ہونے والے ہلاکت خیز پیجرز دھماکوں میں مبینہ طور پر بھارتی شہری کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔17 ستمبر کو لبنان میں ہونے والے پیجرز دھماکوں میں 20 افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہو گئے تھے، جاں بحق ہونے والوں میں لبنانی وزیر کا بیٹا جبکہ زخمیوں میں ایرانی سفیر بھی شامل تھے۔

پیجرز دھماکوں کے حوالے سے ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آئی کہ حزب اللہ نے پیجرز چند ماہ قبل تائیوان کی کمپنی گولڈ اپولو سے خریدے تھے تاہم تائیوانی کمپنی کا اس حوالے سے مؤقف تھا کہ ہم نے پیجر کی تیاری اور فروخت کے حقوق ہنگری کی کمپنی بی اے سی کنسلٹنگ کے ایف ٹی کو فروخت کر رکھے تھے جو ہمارا نام استعمال کرنے کی مجاز تھی۔پیجرز دھماکوں کے دو روز بعد بلغاریہ کی کمپنی کا نام سامنے آنے کے بعد وہاں کی سکیورٹی ایجنسی ڈ اے این ایس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وہ ملکی وزارت داخلہ کے ساتھ ملکر پیجرز دھماکوں میں نوٹرا گلوبل نامی کمپنی کے کردار کے معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔اس سے قبل بلغارین ریاستی سیکیورٹی ایجنسی نے لبنان میں ہونے والے دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دھماکوں میں استعمال ہونے والے پیجرز بلغاریہ میں درآمد، برآمد یا تیار نہیں کیے گئے تھے۔

نوٹرا گلوبل 2022 بلغاریہ کے شہر صوفیا میں رجسٹرڈ ہوئی جسے بھارتی نژاد نارویجئن شہری رنسن جوز چلا رہا تھا۔رنسن جوز کی نوٹرا گلوبل نے 2023 میں اپنا ریونیو 7 لاکھ 25 ہزار ڈالر ( تقریباً 6 کروڑ بھارتی روپے) ظاہر کیا تھا۔ڈی اے این ایس نے اگلے ہی روز بیان دیا کہ لبنان میں دھماکوں سے تباہ کیے جانے والے پیجرز نا تو بلغاریہ سے امپورٹ یا ایکسپورٹ کیے گئے اور نا ہی بنائے گئے، ایجنسی کے تحقیقات کے مطابق نارویجئن کمپنی کے مالک نے کوئی ایسی ٹرانزیکشن نہیں کی جو ملکی قوانین کے مطابق دہشتگری کی معاونت کے زمرے میں آتی ہو۔

ادھر ناروے کی پولیس کا کہنا ہے کہ نارویجئن شہری کا نام سامنے آنے کے بعد انہوں نے بھی اس معاملے کی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست کیرلا سے تعلق رکھنے والا رنسن جوز دو سال قبل تعلیم کے حصول کے لیے ناروے کے دارالحکومت اوسلو گیا تھا جبکہ اس کے رشتہ داروں کا دعویٰ ہے کہ رنسن جوز ایک کھرا بندہ ہے اور ہم اس پر اندھا اعتماد کرتے ہیں، وہ کسی غلط کام میں ملوث نہیں ہوسکتا، اسے شاید اس میں پھنسایا گیا ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے