حماس:غزہ میں غاصب صیہونی فوجیوں کے حملوں کا جاری رہنا اسرائیلی جنگی قیدیوں کی جان  کے لئے خطرہ ہے

171125786.jpg

حماس کے ایک رہنما اسامہ حمدان نے منگل کی رات خبردار کیا ہے کہ غزہ میں غاصب صیہونی فوجیوں کے حملوں کے جاری رہنے سے اسرائیلی جنگ قیدی واپس جانے کے بجائے قتل ہوجائيں گے

اسامہ حمدان نے الجزیرہ ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ اسرائیلی جنگی قیدی، صیہونی فوج کی بمباریوں میں، ان کی فائرنگ میں یا مجاہدین اور صیہونی فوجیوں کے درمیان لڑائی میں ہلاک ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ نتن یاہو نے اپنی پریس کانفرنس میں صرف اسرائیلی جنگی قیدیوں کی ہلاکت کی ذمہ داری سے اپنا شانہ خالی کرنے کی مایوس کن کوشش کی ہے۔

حماس کے اس رہنما نے کہا کہ ایک بات بالکل واضح اور روشن ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیلی جنگی قیدی صرف اس وقت واپس ہوں گے جب غزہ میں جنگ بند ہوگی اور اسرائیلی قیدیوں کا یہاں سے مکمل انخلا ہوگا۔

اسامہ حمدان نے کہا کہ جنگی قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی ہے اور ہمارا ردعمل صرف ان مسائل سے تعلق رکھتا ہے جو ہم ثالثین سے سنتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ فلاڈلفیا سیکٹر کے بارے میں ہمارا موقف واضح ہے اور ہم اس سیکٹر پر کسی بھی شکل میں غاصبوں کی موجودگی قبول نہیں کرسکتے۔

حماس کے رہنما نے کہا کہ فلاڈلفیا ان علاقوں میں شامل ہے جہاں سے غاصب فوجیوں کو پیچھے ہٹنا ہے، اس پر پہلے ہی اتفاق ہوچکا ہے۔

اسامہ حمدان نے آخر میں کہا کہ اگر امریکا نے اسرائيلی حکومت کو فلاڈلفیا سے پیچھے ہٹنے پر مجبورنہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ واشنگٹن صرف یہ کوشش کررہا ہے کہ اس غاصب حکومت کو جنگی قیدیوں کی ہلاکت کے نتائج سے کسی طرح نجات دلادے۔

حماس کے رہنما اسامہ حمدان نے یہ انٹرویو اس وقت دیا ہے جب صیہونی حکومت کے وزير اعظم نتن یاہو نے فلاڈلفیا سے صیہونی فوجیوں کی واپسی مسترد کردی اورکہا کہ یہ حماس کو انعام دینا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔