اسرائیلی ماہرین کی نظر میں اسرائیل کا زوال

images-9.jpeg

اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اس وقت شدید بیرونی اور اندرونی بحرانوں کا شکار ہے جن کا بڑا حصہ غزہ جنگ کے اثرات اور نتائج پر مشتمل ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد سے ان بحرانوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان بحرانوں میں صیہونی معاشرے میں شدید انتشار اور اختلافات بھی شامل ہیں۔ معروف صیہونی تجزیہ کار روگل ایلفر نے صیہونی اخبار ہارٹز میں اپنی ایک تحریر میں اس بات پر زور دیا ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی چھٹی کابینہ کے ذریعے اسرائیل کے تمام ادارے نابود کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ اسی طرح ایک اور صیہونی ماہر اور مصنف ناحوم بارنیا نے بھی نیتن یاہو اور اس کی کابینہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی معاشرہ پوری طرح انتشار کا شکار ہو چکا ہے اور اب اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں یہودیوں کیلئے کوئی محفوظ اور پرسکون جگہ باقی نہیں رہی۔

اسرائیل ٹوٹ جائے گا

معروف صیہونی فوجی ماہر تاریخ پروفیسر مارٹن ون کیرلڈ نے اس بارے میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کی جنگ پہلے سے شکست خوردہ ہے اور اس کا انجام اسرائیل کی نابودی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ یہ صیہونی فوجی ماہر تاریخ جو مقبوضہ بیت المقدس میں عبری یونیورسٹی کا پروفیسر ہے اپنے مقالے "اسرائیل ٹوٹ جائے گا” میں اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسرائیل تمام فلسطینیوں کو نکال باہر کرنے کی جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور اسرائیل اس بات پر مصر ہے کہ تمام فلسطینیوں کو اس سرزمین سے نکل جانا چاہئے۔ پروفیسر مارٹن ون کیرلڈ لکھتا ہے: "ہمارے پاس کئی سو جوہری میزائل اور بم ہیں جنہیں ہم مختلف علاقوں پر داغ سکتے ہیں اور حتی یورپی ممالک کو بھی ان سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اسرائیل اپنی قومی سلامتی کو نقصان پہنچنے کے بہانے ایسے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی معلومات فراہم نہیں کرتا جو اس نے تیار کر رکھے ہیں۔”

صیہونی ماہر تاریخ پروفیسر کیرلڈ مزید لکھتا ہے: "اسرائیل کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں ابہام پیدا کرنے پر مبنی گمراہ کن پالیسی ہمیشہ سے پائی جاتی تھی اور اب بھی موساد پر ڈیوڈ بارنیا کی سربراہی میں یہی پالیسی جاری ہے۔ دو سال پہلے تک صرف 7 سے 8 فیصد اسرائیل اس بات کے حق میں تھے کہ تمام فلسطینیوں کو یہاں سے نکال باہر کرنا چاہئے لیکن ابھی دو ماہ پہلے یہ تعداد بڑھ کر 33 فیصد ہو چکی ہے جبکہ حال ہی میں انجام پانے والی ایک سروے تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ 55 فیصد اسرائیل اس حق میں ہیں کہ تمام فلسطینیوں کو اس سرزمین سے نکال باہر کرنا چاہئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس مقصد کی تکمیل کیلئے ہر ایسے حادثے سے بھرپور فائدہ اٹھانا جو فلسطینیوں کو نکال باہر کرنے کیلئے سنہری موقع ثابت ہو سکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے 1948ء میں رونما ہوا اور فلسطینی یا تو قتل ہو گئے یا یہاں سے بھاگ کر چلے گئے۔”

صیہونی فوج انتشار کا شکار ہے

پروفیسر کیرلڈ نے یہ سوال پیش کیا کہ آیا تمام فلسطینیوں کو نکال باہر کرنے کی صورت میں اسرائیل اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اسے دنیا بھر میں ایک جرائم پیشہ ریاست کے طور پر دیکھا جائے گا اور لکھا: "اسرائیل کی نظر میں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ دنیا اس کے بارے میں کیا کہتی اور سوچتی ہے۔ یہاں ہمیں سابق صیہونی وزیر جنگ موشہ دایان کی بات پر توجہ دینی چاہئے جس نے کہا تھا کہ اسرائیل کو چاہئے ہمیشہ ایک پاگل کتے کی طرح عمل کرے کیونکہ اسے دوسروں کی نظر میں خطرناک ظاہر ہونا چاہئے اور یہ اس سے بہتر ہے کہ دوسرے اسرائیل کو تکلیف پہنچاتے رہیں۔” یہ صیہونی ماہر تاریخ اسرائیل کے پاس موجود جدید ہتھیاروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: "ہماری مسلح افواج کی پوزیشن دنیا میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہے اور ہمارے پاس اپنے ساتھ پوری دنیا کو تباہی کی جانب لے جانے کی طاقت موجود ہے۔”

پروفیسر مارٹن ون کیرلڈ صیہونی فوج کی بری صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: "آج فوجی سربراہان شدید حماقت اور بے وقوفی کا شکار ہیں، بڑی تعداد میں فوجی بھاگ رہے ہیں، فورسز میں منشیات کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، اسرائیلی فوجی اور افسر اسلحے کا ناجائز کاروبار کرتے ہیں اور فلسطینیوں کو اسلحہ اسمگل کرتے ہیں جبکہ فوج شدید انتشار کا شکار ہے۔ ان سب کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسرائیلی امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا نقل مکانی کر رہے ہیں اور اپنی حفاظت کیلئے دوسرے ممالک پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف غزہ جنگ کے سائے میں بیرونی خطرات کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ کے برسراقتدار آنے کے بعد اندرونی اختلافات اور ٹکراو میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک خاص گروہ نے اقتدار پر قبضہ جما رکھا ہے اور دیگر سیاسی جماعتیں اور آبادکار شدید ناراضی ہیں۔”

ایک اور صیہونی ماہر گدعون لیوی اس بارے میں کہتا ہے: "ہم شدید ترین حالات سے روبرو ہیں۔ اسرائیل کو لاحق کینسر کی بیماری آخری مرحلے میں ہے اور اب اس کے علاج کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ یہ بیماری فولادی گنبد نامی میزائل ڈیفنس سسٹم یا سرحدی دیوار یا ایٹم بم کے ذریعے بھی دور نہیں ہو سکتی۔” اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کے سابق سربراہ تامیر پاردو نے اس بارے میں کہا ہے: "اگرچہ اسرائیل کو درپیش بڑے خطرات کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے لیکن اسرائیل کو درپیش سب سے بڑا خطرہ "خود کو نابود کرنے” کا مسئلہ ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے ہم خود ہی خود کو نابود کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اس عمل کو روکیں کیونکہ اسرائیل خود بخود ہی نابودی کا شکار ہو جائے گا۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے