جنرل (ر) فیض حمید کیخلاف ٹاپ سٹی ہاؤسنگ کیس کیا ہے؟

BeFunky-collage-59.jpg

اسلام آباد میں واقع ٹاپ سٹی 1 ہاؤسنگ اسکیم کے سی ای او کنور معیز احمد خان نے کہا کہ 12 مئی 2017 کو جنرل (ر) فیض حامد کے حکم پر میرے گھر اور دفتر پر چھاپہ مارا گیا۔

درخواست گزار معیز احمد خان کا کہنا تھا کہ چھاپے کے دوران ہماری نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کا قیمتی سامان اور ریکارڈ چوری کیا گیا۔

کنور معیز احمد خان نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ انکے خلاف غیر قانونی کارروائی کا مقصد اسلام آباد میں سرینگر ہائی وے پر واقع ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی ون کا کنٹرول حاصل کرنا تھا۔

سپریم کورٹ نے15 نومبر 2023 کو کیس کے تحریری فیصلے میں کہا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر یہ الزامات درست ثابت ہو گئے تو ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے ’ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم‘ کے مالک معز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست کے مطابق 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور مالک معیز خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونے اور ہیروں کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان لوٹ لیا۔

ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور ان کے حکم پر ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، بریت کے بعد جنرل (ر) فیض حمید نے معیز خان سے انکے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کیلئے رابطہ کیا جوکہ فوج میں ایک بریگیڈیئر ہیں۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینا گیا 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کردیں گے۔

درخواست میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے (ر) بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادا کرنے اور کچھ مہینوں کیلئے ایک نجی چینل ’آپ ٹی وی نیٹ ورک‘ کو اسپانسر کرنے پر مجبور کیا۔درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق عہدیداران جن میں ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔

خیال رہے کہ دلائل کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق ایک اور کیس بھی نمٹا چکا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدہ چھوڑنے سے قبل تمام ریکارڈ کو ضائع کرنے کا حکم دیا تھا۔عدالت نے ریمارکس دیے کیا کہ یہ معاملہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق نہیں ہے اور درخواست گزار کو وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔عدالت نے یہ بھی نشان دہی کی کہ درخواست گزار بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف سول یا فوجداری عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔عدالت عظمیٰ کے بینچ نے مزید ریمارکس دیے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے اپنے چیمبر میں ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق کیس کی سماعت آئینی دفعات کے مطابق نہیں تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے