جان لیوا انتظار
تہران میں غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے حماس کے سربراہ شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کو دس دن گزر چکے ہیں اور ایران نے بدستور معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دوران ایران اسرائیل کو مناسب اور منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہے۔ ایرانی عوام بھی جانتے ہیں کہ ایران کا جواب حتمی ہے اور وہ بھی جوابی کاروائی شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن مقبوضہ فلسطین کے حالات یکسر مختلف ہیں۔ شہید اسماعیل ہنیہ اور شہید فواد شکر کی شہادت کے بعد گزرنے والا ہر دن صیہونی حکمرانوں اور آبادکاروں کیلئے ڈراونا خواب بن کر گزرتا ہے اور وہ ہر روز اس جان لیوا انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب ایران اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے ڈرون طیارے اور میزائل ان کے سروں پر آ لگیں گے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ جان لیوا انتظار بھی صیہونیوں کی سخت سزا کا حصہ ہے۔
اس جان لیوا انتظار نے غاصب صیہونی رژیم کو فیصلہ سازی کے بحران سے روبرو کر دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ ایران کی جانب سے ممکنہ جوابی کاروائی کی نوعیت اور وسعت معلوم نہیں ہے جس کے باعث صیہونی حکمران اس سے مقابلہ کرنے کیلئے واضح حکمت عملی وضع کرنے سے قاصر ہیں۔ اس بات کی جانب سابق صیہونی عہدیدار بھی اشارہ کر چکے ہیں۔ گذشتہ ہفتے جمعرات کے دن سابق صیہونی وزیر جنگ اویگڈور لیبرمین نے ایران کی جوابی کاروائی کے انتظار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ صیہونی رژیم کے پاس ایران کی انتقامی کاروائی کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی واضح لائحہ عمل نہیں پایا جاتا۔ ریڈیو اسرائیل نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد تمام صیہونی شدید خوف و وحشت کی فضا میں ہیں اور ہر لمحہ جوابی کاروائی کا انتظار کر رہے ہیں۔
دوسری طرف صیہونی ٹی وی چینل 12 نے ایک پروگرام میں واضح اعلان کیا ہے کہ ایران نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر رکھی ہے اور صیہونی اسے پورے وجود سے محسوس کر رہے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی خبر دی ہے کہ اسرائیل نے ایران اور حزب اللہ لبنان کی جانب سے ممکنہ جوابی کاروائی کے پیش نظر تمام صیہونیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پناہ گاہوں میں چلے جائیں اور پانی اور غذائی اشیاء کا ذخیرہ کر لیں۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز کے مطابق مقبوضہ فلسطین میں تمام اسپتالوں کو ریڈ الرٹ کر دیا گیا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر تمام مریضوں کو انڈر گراونڈ حصوں میں منتقل کر دیا جائے اور تمام بڑے شہروں میں فرسٹ ایڈ ٹیمیں بھی تعیینات کر دی گئی ہیں۔ ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے جوابی کاروائی کے خوف نے صیہونی اسٹاک ایکسچینج کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
حملے کے خوف سے صیہونی رژیم کا اسٹاک ایکسچینج اپریل سے اب تک نچلی ترین سطح تک گر چکا ہے۔ تل ابیب کی حصص مارکیٹ (TASE) گذشتہ ہفتے نئے ہفتے کے آغاز پر ایران اور حزب اللہ کے ممکنہ جوابی حملے کے خوف سے گرتی چلی گئی اور نچلی ترین سطح پر جا پہنچی۔ تل ابیب اسٹاک ایکسچینج کی رپورٹ کے مطابق ٹی ای ایس ای کے حصص 1937 کی سطح تک گر گئے جو اپریل کے آخری ہفتے سے اب تک کم ترین سطح ہے۔ تل ابیب اسٹاک ایکسچینج میں گراوٹ کا رجحان جولائی کے وسط میں اس وقت پیدا ہوا جب حزب اللہ لبنان اور ایران کی جانب سے شدید دباو پایا جاتا تھا۔ اسی طرح جمعہ کے روز وال اسٹریٹ میں بھی حصص بری طرح گر گئے تھے۔ دوسری طرف امریکہ کی جانب سے سفارتی سطح پر ایران کو شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کا جواب دینے سے روکنے کی تمام تر کوششیں بھی ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
اس کے باوجود امریکہ ایران کے خلاف مختلف ہتھکنڈے آزمانے میں مصروف ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران کو اسرائیل پر جوابی حملے کی صورت میں حملے کی دھمکی اور یہ کہنا کہ ایران کی معیشت بری طرح متاثر ہو گی ایسے ہی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے خبر دی ہے کہ امریکی حکومت نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ اسرائیل کے خلاف بڑا حملہ انجام دے گا تو ایران کی نئی آنے والی حکومت اور معیشت سخت مشکلات کا شکار ہو جائیں گی۔ اس سے پہلے بھی امریکہ ایران کو اسرائیل کے خلاف انتقامی کاروائی سے روکنے کیلئے لالچ پر مبنی ہتھکنڈے استعمال کر چکا ہے لیکن وہ بھی ناکام ثابت ہو گئے ہیں۔ امریکہ نے ایران کو پیشکش کی تھی کہ اگر اسرائیل کے خلاف جوابی کاروائی سے گریز کرے تو امریکہ ایران سے جوہری معاہدے میں واپس آ جائے گا۔
شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے ابتدائی گھنٹوں میں ہی امریکہ نے اس دہشت گردانہ اقدام سے بے اطلاعی کا دعوی کیا تھا اور اس بات پر زور دیا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے تاکہ ایران کے ممکنہ انتقام سے محفوظ رہ سکے۔ غاصب صیہونی رژیم کی قومی سلامتی کونسل کی سربراہ تراچی ہانگبی نے شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے دو دن بعد کہا تھا: "ہم نے کسی سے حتی امریکہ سے بھی فوجی مدد کی درخواست نہیں کی۔ ہمیں ان کی فورسز کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ امریکی سپاہی ہماری خاطر خون بہانے پر مجبور نہیں ہیں۔” لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ اب جبکہ ایران کی انتقامی کاروائی حتمی ہو چکی ہے اسرائیل خود کو امریکہ کا محتاج محسوس کر رہا ہے اور امریکہ بھی صیہونی آبادکاروں کو حوصلہ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ سینٹکام کمانڈر کی مسلسل مقبوضہ فلسطین آمدورفت اس بات کا واضح ثبوت ہے۔