اسرائيل کو مضبوط سوچ سمجھ کر اور موثر جواب دیں گے، سید حسن نصر اللہ
حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل نے سینئر کمانڈر کی شہادت کی ساتویں دن کے موقع پر اپنے خطاب کے دوران ایران اور حزب اللہ کے ردعمل سے صیہونیوں کے خوف کی طرف اشارہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل مغربی ممالک میں پناہ مانگ رہا ہے اور صیہوین حکومت کے راڈار اور امریکی سیٹیلائٹ پوری طرح سے تیار ہيں ۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل "سید حسن نصر اللہ” نے اپنے خطاب کا آغاز اس تحریک کے سینیئر مجاہد و کمانڈر "فواد شکر” کی بہادری پر روشنی ڈالتے ہوئے کیا۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا: "دشمن اپنی بچگانہ ذہانت کی وجہ سے اشتعال انگیز کارروائی میں بیروت کے ضاحیہ جنوبی میں ساؤنڈ بیريئر توڑ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: "ہماری طاقت کا راز استحکام ہے کیونکہ ہمارے رہنماؤں کو مارنے سے ہماری قوت ارادی اور آگے بڑھتے رہنے کے فیصلے کو کبھی کمزور نہیں کیا جا سکتا ۔”
انہوں نے کہا: موجودہ جنگ کا مرکزی میدان فلسطین اور غزہ پٹی ہے جس سے مددگار محاذ بھی جڑ گئے ہيں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: صیہونی حکومت کے وزیر اعظم جنگ کو روکنا نہیں چاہتے اور معاہدے کے لیے اپنی تمام تجاویز میں اسی نکتے پر زور دیتے ہیں۔ نیتن یاہو غزہ پٹی میں فلسطینی مزاحمت کو گھٹنوں کے بل لانا چاہتے ہیں اور وہاں مکمل سیکوریٹی کنٹرول چاہتے ہیں۔ صیہونی حکومت غزہ پٹی تک میں بھی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر راضی نہیں ہوگی۔
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کہا: غاصب صیہونی حکومت غرب اردن پر بمباری اور فلسطینیوں کو بے گھر کرکے انہیں اردن کی طرف روانہ کرنے اور اس علاقے کا فلسطینی سرزمین کے مقبوضہ علاقوں میں باضابطہ طور پر الحاق کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: صہیونیوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کا کوئی وجود نہیں۔ دریں اثناء مزاحمتی محاذ کا منصوبہ دریائے اردن سے بحیرہ روم تک ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل کا ہے۔ لہٰذا ان دونوں نظریات کے درمیان جو بھی منصوبے پیش کئے گئے ہیں وہ غیر حقیقی ہیں اور ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا: اوسلو معاہدے کے بعد گزشتہ 31 برسوں میں امریکہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور آج اس کے اس حوالے سے دعوے جھوٹ اور منافقت پر مبنی ہیں کیونکہ یہ ملک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے سلسلے میں سلامتی کونسل میں کسی بھی قسم کی ووٹنگ کو ویٹو کر دے گا۔ صیہونی حکومت کو امریکہ کی امداد اس بات کی علامت ہے کہ صیہونی کی اپنی طاقت ختم وہ چکی ہے ۔ امریکی یہ دعوی کر کے دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ وہ جنگ میں نیتن یاہو کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ اس حکومت کو بڑے پیمانے پر مسلح کر رہے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: اگر ، ناممکن مفروضے کی بنیاد پرغزہ میں مزاحمت ناکام ہو جاتی ہے، تو اسرائیل تمام اسلامی اور عیسائی مقدس مقامات، فلسطین، اردن اور اس کی حکمران حکومت، شام اور مصر کو تباہ کر دے گا۔ اس لئے علاقے کے لوگوں کو اس جنگ میں اسرائیل کی فتح کو روکنے اور مزاحمت اور فلسطینی کاز کو تباہی سے بچانے کو اپنے لیے ایک ہدف قرار دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا: لبنان میں جو لوگ مزاحمت کی فتح کی طرف سے تشویش کا اظہار کرتے ہیں، انہیں دشمن کی جیت کی صورت میں خطے کو در پیش خطرات کو بھی سمجھیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا : بلاشبہ شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت فلسطینی قوم اور مزاحمتی محاذ کے لیے بہت بڑا نقصان ہے لیکن اس سے ہمیں نہ تو جھٹکا لگے گا اور نہ ہی ہم کمزور ہوں گے اور مزاحمتی کارروائیوں میں اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ ان کے قتل سے دشمن کی پوزيشن مزید خراب ہو گئی ہے کیونکہ غرب اردن میں مزاحمت بڑھی ہے اور مقبوضہ سر زمین سے الٹی مہاجرت میں اضافہ وہا ہے۔ اس کے علاوہ دشمن کو تمام شعبوں میں بے شمار معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: سن 1967 اور 1973 میں خطے کی مضبوط ترین فوجوں سے لڑنے والی اسرائیلی حکومت آج ایران اور حزب اللہ کے ردعمل سے بے حد خوفزدہ ہے اور اپنے دفاع کے لیے مغربی ممالک کی پناہ میں جا رہی ہے ۔ دشمن کو جواب دینے کے لیے حزب اللہ، ایران اور یمن جواب دینے کے پابند ہیں ۔ دشمن بھی اس جواب کا انتظار کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا: ہم غاصب صیہونی حکومت کو منہ توڑ جواب دیں گے اور یہ جواب مضبوط اور موثر ہوگا۔ آج مقبوضہ علاقوں میں تمام صہیونی ، مزاحمتی محاذ کے ردعمل سے بے حد پریشان ہیں اور انتظار کی یہ حالت جنگ کا حصہ ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: یہ ایک بہت بڑا معرکہ ہے اور قیمتی اور پیاری شخچصیتوں کا خون بہایا گیا ہے اور یہ ایک ایسا خطرناک حملہ ہے اس لئے مزاحمتی محاذ انجام کی پرواہ کئے بغیر، جواب ضرور دے گا۔
انہوں نے کہا: ہمارا جواب یقینی، مضبوط، موثر ہوگا اور ہم آنے والے دنوں میں میدان میں دشمن کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ ہمیں لبنان میں اپنے ملک اور اپنے ہم وطنوں کی صورتحال پر تشویش ہے، لیکن کوئی بھی ہم سے دشمن کے ساتھ بات چیت کی توقع نہیں کر سکتا جیسا کہ ہم نے 10 مہینے میں بھی یہی کیا ہے۔ ہم مقبوضہ علاقوں کے شمال میں صہیونی کارخانوں کو ایک گھنٹے میں تباہ کر سکتے ہیں اور اس علاقے میں دشمن کی صلاحیتوں اور تنصیبات کو تباہ کرنے میں صرف آدھا گھنٹہ لگے گا۔