ریاستی دہشت گردی کے ذریعے جھوٹی فتح حاصل کرنے کی ناکام کوشش

images-1.jpeg

گذشتہ ایک عرصے سے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے اسلامی مزاحمت کے اعلی سطحی کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت اپنے عروج کو پہنچا جب گذشتہ ہفتے صیہونی حکمرانوں نے تمام تر عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایران کے نئے منتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی غرض سے سفارتی پاسپورٹ پر تہران آئے حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ان کی سرکاری رہائش گاہ میں نشانہ بنایا اور شہید کر ڈالا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صیہونی رژیم کی یہ ریاستی دہشت گردی امریکہ اور برطانیہ کی بھرپور حمایت اور مدد سے انجام پائی ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق شہید اسماعیل ہنیہ کو گائیڈڈ میزائل سے نشانہ بنایا گیا جبکہ امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے نے بھی اس دہشت گردانہ اقدام میں صیہونی رژیم کا ساتھ دیا ہے۔

اس سے ایک دن پہلے ہی صیہونی حکمرانوں نے ایک اور ریاستی دہشت گردی انجام دیتے ہوئے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں حزب اللہ لبنان کے اعلی سطحی رہنما فواد شکر کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا تھا۔ ان تازہ ترین دہشت گردانہ اقدامات کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب مقبوضہ گولان ہائٹس میں ایک فٹبال گراونڈ پر مشکوک میزائل حملہ انجام پایا جس میں دس عام شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ صیہونی حکمرانوں نے اس کا الزام حزب اللہ لبنان پر عائد کیا اور سخت بدلہ لینے کی دھمکی دی۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان نے کئی بار اعلان کیا کہ اس نے ایسا حملہ انجام نہیں دیا جبکہ عینی شاہدین کے مطابق مجدل شمس میں گرنے والا میزائل درحقیقت اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم کا میزائل تھا جو غلطی سے فٹبال گراونڈ میں آ گرا تھا۔ غاصب صیہونی رژیم نے ان اقدامات کے ذریعے اسلامی مزاحمت اور ایران کی تعیین کردہ تمام ریڈ لائنز سے عبور کر لیا ہے۔

 

تہران میں شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے کچھ ہی دیر بعد ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے اپنے پیغام میں اعلان کیا کہ اس مجرمانہ اقدام پر غاصب صیہونی رژیم کو "سخت سزا” دی جائے گی۔ شہید اسماعیل ہنیہ اگرچہ فوجی کمانڈر نہیں تھے لیکن وہ حماس کے فوجی رہنماوں کی حد تک احتیاط کرتے تھے اور سکیورٹی کے لحاظ سے ضروری امور کا خیال رکھتے تھے۔ صیہونی حکمرانوں نے گذشتہ کئی سالوں سے ان کی ٹارگٹ کلنگ کی دھمکی دے رکھی تھی لہذا ان پر قاتلانہ حملہ غیر متوقع نہیں تھا۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن حماس کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف کامیاب طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے کے بعد شہید اسماعیل ہنیہ عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن چکے تھے۔ شہید اسماعیل ہنیہ نے سفارتی میدان میں غاصب صیہونی رژیم کو ناکوں چنے چبوا رکھے تھے۔

 

جب غزہ جنگ میں صیہونی رژیم کو واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا تو شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کا خطرہ بھی مزید بڑھ گیا اور بہت سے ماہرین کئی بار اس بارے میں خبردار بھی کر چکے تھے۔ اس خطرے کی بڑی وجہ غزہ جنگ میں صیہونی حکمرانوں کی عبرتناک شکست تھی لہذا صیہونی حکمران کسی بھی قیمت پر عالمی رائے عامہ کی توجہ اپنی اس شکست سے ہٹوانا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شہید اسماعیل ہنیہ کو تہران میں ٹھیک اس وقت ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا جب نئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری انجام پا چکی تھی اور پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کی توجہ تہران پر مرکوز تھی۔ شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کیلئے ایسے موقع کا انتخاب اس لئے کیا گیا تاکہ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح فوراً ہی پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ میں پہلی سرخی بن جائے۔

 

لہذا شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کا بنیادی ترین مقصد صیہونی حکمرانوں کی جانب سے اپنے لئے جھوٹی فتح کا تاثر دینا تھا۔ صیہونی حکمران اس طرح غزہ جنگ میں ذلت آمیز شکست کے باعث اپنا کھویا ہوا وقار اور حیثیت واپس لوٹانا چاہتے تھے۔ اسی طرح بنجمن نیتن یاہو اپنی سیاسی کارکردگی بہتر ظاہر کر کے مقبوضہ فلسطین میں اپنا سیاسی مقام بہتر بنانے کیلئے کوشاں تھا۔ اگرچہ اب تک اس دہشت گردانہ اقدام میں کارفرما عوامل کے بارے میں بہت سے سوالات پائے جاتے ہیں لیکن جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ صیہونی حکمرانوں نے امریکی حکمرانوں کی مدد سے یہ دہشت گردی انجام دی ہے۔ پوری تاریخ میں مسئلہ فلسطین اس طرح عالمی توجہ کا مرکز نہیں بنا تھا جس طرح آج بنا ہوا ہے اور یہ سب مظلوم فلسطینی عوام کی بے مثال شجاعت اور استقامت کا نتیجہ ہے۔

 

مسئلہ فلسطین اس وقت اپنے خطرناک ترین مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ شہید اسماعیل ہنیہ کی تہران میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم غزہ، لبنان اور یمن میں اسلامی مزاحمتی قوتوں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ فلسطین پر اپنا غاصبانہ قبضہ جاری رکھنے کیلئے بدمعاشی کی کوئی بھی حد عبور کر سکتے ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم اسلامی مزاحمتی رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کو فلسطین کاز ختم کرنے کا آسان ترین راستہ سمجھتی ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کا ایک مقصد صیہونی حکمرانوں کی اس بیمار ذہنیت کو ختم کرنا تھا اور انہیں یہ یقین دلانا تھا کہ شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ سے عظیم مزاحمتی تحریک کو روکنا ناممکن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے اسلامی مزاحمتی ثقافت کو فروغ ملے گا اور غزہ جیسی مزاحمت مغربی کنارے اور پورے مقبوضہ فلسطین تک پھیل جائے گی۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے