غزہ میں اسکول صیہونی بربریت کا شکار، 2 مزيد اسکولوں پر بھیانک حملہ

171301699.jpg

غزہ پٹی کے خلاف جنگ کے مذموم اہداف کو 10 ماہ گزرنے کے بعد بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہونے والی صہیونی فوج نے فلسطینی مزاحمت کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لیے اسکولوں میں پناہ لینے والے شہریوں کو قتل کرنا شروع کر دیا ہے۔

فلسطینی ذرائع ابلاغ نے اس سلسلے ميں اعلان کیا ہے کہ صہیونی فوج نے اپنے تازہ ترین جرم میں غزہ شہر کے مغرب میں دو اسکولوں "النصر” اور "حسن سلامہ” کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔

رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 30 شہید اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں اور شہداء کی تعداد میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔

اس سلسلے میں غزہ میں شہری دفاع کے ترجمان "محمود بصل ” نے بتایا ہے : "غزہ شہر کی صورتحال سخت اور افسوسناک ہے اور النصر اور حسن سلامہ اسکولوں میں شہید اور زخمی ہونے والوں میں 80 فیصد بچے ہیں۔ ”

انہوں نے کہا: غزہ شہر میں اب کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے اور غاصب صیہونی حکومت کسی اصول کا احترام نہیں کرتی۔

بصل نے مزید کہا: غاصب صیہونی حکومت فلسطینیوں کو اپنی ان کارروائيوں سے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ان کے لئے غزہ چھوڑنا اب ضروری ہے اور اسی لئے وہ غزہ پٹی میں خواتین اور بچوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنا رہی ہے تاکہ غزہ کے اسپتالوں میں صیہونیوں کے جرائم کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رہے۔

اس جرم کے بعد غزہ پٹی میں سرکاری ذرائع نے بھی اعلان کیا: غزہ کی پٹی میں جنگ کے آغاز سے اب تک غاصب صیہونی فوج کی جانب سے پناہ گزینوں کی 172 پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

سرکاری ذرائع نے یہ بھی اطلاع دی کہ غزہ پٹی میں صیہونی جنگ کے آغاز سے اب تک اسکولوں پر حملوں کے دوران 1400 افراد شہید ہو چکے ہیں

گذشتہ چند دنوں کے دوران صہیونی فوج نے غزہ پٹی کے مختلف علاقوں میں متعدد اسکولوں کو نشانہ بنایا جہاں فلسطینی پناہ گزیں ، پناہ لئے ہوئے تھے جن میں درجنوں فلسطینی شہید ہوئے جن میں اکثر خواتین اور بچے تھے۔

در ايں اثنا فلسطین کی وزارت صحت نے غزہ پٹی میں صیہونی حکومت کے جرائم کے نتیجے میں شہداء اور زخمیوں کے تازہ ترین اعدادوشمار بھی شائع کیے اور اعلان کیا کہ الاقصیٰ طوفان آپریشن کے آغاز سے اب تک اس علاقے میں 39 ہزار 500 سے زائد لوگ شہید ہو چکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔