پیرس اولمپکس میں ” حضرت عیسیؑ کی توہین میں بھی یہودی ہاتھ ملوث

WhatsApp-Image-2024-07-29-at-2.40.49-PM.jpeg

پیرس اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کی گئی ہے۔ تقریب کے دوران پیش کیے گئے ایک خاکے میں حضرت عیسی علیہ السلام کے آخری عشائیہ کا منظر پیش کیا گیا لیکن اس خاکے میں شریک افراد سارے ہم جنس پرست گروہ LGBT سے تھے اور ان سب کے درمیان  حضرت عیسی علیہ السلام کی جگہ پر ایک موٹی یہودی عورت کو دکھایا گیا جس کے بازو پر شیطانی ٹیٹو بھی بنے ہوئے تھے جبکہ ان سب کے آگے ایک نیلے رنگ سے ڈھالا ہوا بندہ گانا گاکر انکی توہین کرتا ہے۔یاد رہے کہ افتتاحی تقریب میں حضرت عیسی علیہ السلام کی اس توہین سے عیسائیت و اسلامی دنیا میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی

آخری عشائیہ کیا ہے ؟

عیسائی مذہب میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا عشائیہ The Last Supper کو تقدیس کا آخری درجہ مانا جاتا ہے ـ حضرت عیسی علیہ السلام کا آخری کھانا جو عشائ ربانی بھی کہلاتا ہے وہ آخری کھانا ہے جو انہوں نے اپنے شاگردوں کے ساتھ یہوداہ اسکریوتی کی طرف سے بے وفائی کرنے اور گرفتار ہونے سے پہلے کھایا تھا

عیسائی مذہب کے مطابق "فسح” نامی اس تقریب میں جناب عیسیؑ نے اپنے حواریوں میں اپنے پیالے سے کھانا تقسیم کرتے ہوئے ” یہوداہ اسکریوتی” کی غداری اور اپنی مصلوبی کی مبہم پیش گوئی کرتے ہوئے اس تقریب کو باقاعدہ منانے کا حکم بھی صادر فرمایا تھا ـ تب سے عیسائیت میں اس آخری ضیافت کا تہوار مذہبی عقیدت سے منایا جاتا ہے

خاکے کا پس منظر

جناب عیسی علیہ السلام کے اس آخری عشائیہ کے حوالے سے پندرھویں صدی کے مشہور آرٹسٹ اور شہرہ آفاق تصویر "مونا لیزا” کے خالق ” لارڈوانچی” کی بنائی تصویر THE LAST SUPPER کو عیسائی دنیا میں خصوصی اہمیت حاصل ہے اور اسے قریب از حقیقت تصویر سمجھتے ہوئے مقدس سمجھا جاتا ہے

نمائندہ بصیر میڈیا کے مطابق پیرس اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے دوران  ٹرانس جینڈر فنکاروں کا ایک گروپ ایک طویل ویڈیو پریزنٹیشن میں نمودار ہوا۔ اور انہوں نے "لیونارڈو ڈا ونچی” کی پینٹنگ "دی لاسٹ سپر” میں بنائے گئے کرداروں کی شکل اپنائی ہوئی تھی جبکہ ان کرداروں کے درمیان حضرت عیسی علیہ السلام کی جگہ یہودی ہم جنس پرست فنکار "تھامس جولی” بیٹھی ہوئیں تھی جسکے سامنے نیلے لباس میں ملبوس ایک ٹرانس جینڈر شخص ناچ رہا تھا، چھلانگ لگا رہا تھا، رینگ رہا تھا، ہل رہا تھا اور جنسی اشارے کر رہا تھا

یہودی ہاتھ کا ملوث ہونا

اس خاکے کی تشیہر کے ساتھ ہی عیسائی و اسلامی دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور کچھ ہی دیر بعد یہ موضوع پوری دنیا میں ڈسکس ہونے لگا جسکے بعد انکشاف ہوا کہ حضرت عیسیؑ کی توہین اور عیسائی و اسلامی دنیا کی دل شکنی کے پیچھے "یہودیوں” کا ہاتھ ہے

تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق فرانس اولمپک کمیٹی میں تمام ارکان یہودی ہیں بلکہ تقریب کا یہ حصہ بھی ایک یہودی نے پلان اور ایگزیکیوٹ کیا ہے بلکہ مرکزی کردار بھی یہودی ہم جنس پسند فنکارہ تھامس جولی نے نباہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ یہودی ارکان اور فنکار  اس توہین میں دانستہ طور ملوث ہیں کیونکہ یہودیوں کو حضرت عیسیؑ سے کتنی خار ہے اس سے سب واقف ہیں۔

کیتھولک چرچ اور امریکی و یورپی ردعمل

افتتاحی تقریب میں ہونے وای اس گستاخی پر کیتھولک چرچ اور عام عیسائی دنیا میں مذہبی غصے اور تشویش کی لہر دوڑ گئی چرچ نے اس پیروڈی کو مذہبی عقائد کی خوفناک توہین قرار دیتے ہوئے اولمپکس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کردیا ہے۔ کیتھولک چرچ کے مطابق ان چیزوں کا نہ تو مذہب سے کوئی تعلق ہے نہ ہی آرٹ یا موسیقی سے کوئی تعلق ہے۔ یہاں تک کہ اولمپیکس گیمز جو اپنے قیام کے بعد سے انسانیت کی ترقی اور تہذیب کی نمائندگی کر رہے ہیں ان حرکات کا اس سے بھی تعلق نہیں ہے اور یہ صریحا دانستہ گستاخی ہے جس کے مجرم سزا کے حقدار ہیں

امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن نے پیرس میں اولمپکس کی افتتاحی تقریب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئےکہا ہے کہ "گذشتہ رات ’ٓاخری عشائیے‘کا مذاق اڑانا دنیا بھر کے عیسائیوں کے لیے چونکا دینے والا اور توہین آمیز اقدام تھا۔ اس نے پیرس میں اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے دوران اس میگا ایونٹ کو متازعہ بنا دیا۔جانس نے’ایکس‘ پلیٹ فارم پر مزید کہاکہ "عقیدے اور مستند اقدار کے خلاف جنگ سرحدوں کو عبور کر چکی ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ سچائی اور نیکی غالب آئے گی”جانسن نے”جان کی انجیل” کے ایک جملے کے ساتھ پوسٹ کا اختتام کیا، جس کا مطلب ہے: "روشنی اندھیرے میں چمکتی ہے۔ اندھیرا روشنی کو نہیں بجھا سکتا”۔ وہ مسیحیوں کی عظیم اقدار کی فتح کا حوالہ دے رہےتھے

یورپی پارلیمنٹ کے رکن ماریو ماریچل نے اس واقعے پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دُنیا کے تمام مسیحیوں کے لیے پیغام ہے۔”دنیا کے تمام مسیحی جو پیرس 2024ء کو دیکھ رہے ہیں۔آخری عشائیہ کی اس پیروڈی سے تقریب اور اپنی توہین محسوس کریں، جان لیں کہ فرانس ایک جیسا نہیں ہے‘‘۔

اس اسکینڈل نے یونان کےفالورز کو بھی ناراض کردیا جو قدیم زمانے سے اولمپکس کے تصور کو قائم کرنے کا اعزاز اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں”۔ انہوں نے اس اقدام کو یورپ کا زوال اور اولمپکس کی روح اور خیال کر مردہ قرار دینے کے مترادف قرار دیا۔ایک اور صارف نے لکھا کہ ’’جب اولمپکس کی روح اور خیال مر جاتا ہے‘‘ ۔ یہ مضحکہ خیز توہین یونانی افسانوں کے دیوتاؤں تک بھی پھیلی۔ ایک پیروکار نے تبصرہ کیا کہ یونانی دیوتا "Dionysus” کی مجسم شکل ہمیں انسانوں کے درمیان تشدد کی مضحکہ خیزی کا احساس دلاتی ہے

اس دانستہ توہین پر کیتھولک مسیحیوں کی اکثریت والے ممالک میں احتجاج شدت اختیار کررہے ہیں، جنکا مطالبہ ہے کہ فرانسیسی حکومت فوری پر توہین کی معافی مانگے۔دوسری جانب سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (ٹوئٹر) کے سربراہ ایلون مُسک نے بھی اسے عیسائیوں کی بےعزتی قرار دیا ہے۔اسی طرح امریکی ریپبلکن کے نمائندے اگست فلوگر نے عیسائیت کا مذاق اڑانے کے واقعہ کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔

ایرانی حکومت اور قاہرہ یونیورسٹی کا رعمل

مذہب اسلام کی تعلیمات کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کا شمار اللہ تعالی کے برگزیدہ انبیا میں ہوتا ہے آپ کا شمار صاحب کلمہ و کتاب رسولوں میں کیا جاتا ہے اسی وجہ سے  اسلامی دنیا میں حضرت عیسی علیہ السلام کی تقدیس کو حکم واجبی سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس توہین نے عام امت مسلمہ کے قلب پر خنجر چلا دئیے

اس تناظر میں سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے فرانسیسی سفیر کو طلب کرکے اس گستاخی کے مرتکب افراد کی سزا اور اولمپکس انتظامیہ کی طرف سے معافی کا مطالبہ پیش کیا جبکہ ایرانی وزیر ثقافت نے کہا کہ کل پیرس میں یسوع مسیح کی توہین آمیز depiction مکمل طور پر ناگوار تھی اور اس نے تمام سرخ لکیروں کو عبور کیا۔ فرانس، عیسائیت کی ایک بڑی تاریخ کے حامل ملک کو اپنے آپ پر شرم آنی چاہیے، اور میں پوری دنیا کے اپنے عیسائیوں سے التجا کرتا ہوں کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں – ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

دوسری طرف قاہرہ کی الازہر اسلامی یونیورسٹی، جو دنیا کے سب سے باوقار اسلامی اداروں میں سے ایک ہے، نے فرانس کی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کو ‘یسوع مسیح اور عیسائیت کی توہین’ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہوئے ایک خط جاری کیا ہے۔ ایرانی حکومت اور قاہرہ یونیورسٹی کے خط کے علاوہ بدقسمتی سے اور کسی اسلامی ملک کی طرف سے اس توہین کے بارے میں کوئی بھی ردعمل اس وقت دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ہی اولمپکس انتظامیہ کی طرف سے اس معاملے پر معافی مانگی گئی ہے

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے