جرمن حکومت نے ہمبورگ اسلامک سنٹر بند کیوں کیا؟

7.jpg

ہمبورگ اسلامک سنٹر 1953ء میں آیت اللہ بروجردی کی حمایت سے تشکیل پایا تھا اور وہ جرمنی کے اہم ترین اسلامی مراکز میں سے ایک جانا جاتا ہے۔ اسی طرح اس اسلامک سنٹر کا نام شہید بہشتی کے نام سے بھی جڑا ہوا ہے۔ ہمبورگ اسلامک سنٹر یورپ میں اسلامی تعلیمات کی ترویج نیز انقلاب اسلامی ایران کی حمایت میں اہم کردار کا حامل رہا ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران ہمبورگ اسلامک سنٹر جرمنی کے ایران مخالف سیاست دانوں، اسرائیل نواز انقلاب مخالف دہشت گردوں اور اسرائیلی اداروں کے حملوں کا نشانہ بنتا آیا ہے۔ اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد نے جرمنی میں ہمبورگ اسلامک سنٹر کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے ذریعے زہریلی فضا تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح موساد اور جرمنی میں سرگرم صیہونی لابی نے اپنے جرمن اور فارسی زبان ایجنٹس کے ذریعے ہمبورگ اسلامک سنٹر کو بند کر دینے کیلئے جرمنی کے سیاسی اور میڈیا حلقوں میں بھرپور مہم بھی چلائی ہے۔

بدھ 24 جولائی 2024ء کے دن جرمن پولیس نے ہمبورگ اسلامک سنٹر پر ریڈ کیا اور سرکاری طور پر اس اسلامی مرکز کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے اسے ممنوعہ قرار دے دیا۔ جرمن حکام کے بقول ہمبورگ اسلامک سنٹر پر پابندی کی وجہ اس کی جانب سے اسلام پسند افکار کی ترویج اور حزب اللہ لبنان کی حمایت کرنا ہے۔ جرمن حکومت کے اس ایران مخالف اقدام کے بارے میں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اقدام اس وقت کیوں انجام پایا اور اس کے پیچھے کیا وجوہات پوشیدہ ہیں؟ جرمن حکومت کا یہ اقدام ٹھیک ایسے وقت انجام پایا ہے جب اسلامی جمہوریہ ایران میں نئی حکومت برسراقتدار آنے والی ہے۔ برلن میں یہ سوچ تشکیل پا چکی ہے کہ تہران کی پوری توجہ حکومت کی تبدیل پر مرکوز ہے لہذا اس کی جانب سے جرمن حکومت کے اس جارحانہ اقدام پر کوئی سنجیدہ ردعمل سامنے نہیں آئے گا۔

جرمن حکومت، دیگر مغربی حکومتوں کی طرح غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف عالمی سطح پر ظاہر ہونے والے عوامی ردعمل سے شدید خوف و وحشت کا شکار ہو چکی ہے۔ اس نفسیاتی حالت کا مشاہدہ جرمن پولیس کے ان جنون آمیز اقدامات میں آسانی سے کیا جا سکتا ہے جو وہ جرمنی میں اسرائیل کے خلاف اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کے خلاف انجام دینے میں مصروف ہے۔ جرمن پولیس نے فلسطینی اسکارف، فلسطینی پرچم، فلسطینی نعرے (بحر سے نہر تک) اور نسل کشی اور قومی صفایا جیسے الفاظ کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ فلسطین کے حق میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شریک مظاہرین کو بھی انتہائی بے رحمانہ انداز میں زدوکوب کر کے کچل رہی ہے۔ اسی طرح مظاہرین کو کام سے فارغ کر دینے اور ان کی شہریت اور گرین کارڈ کینسل کر دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

ہمبورگ اسلامک سنٹر پر پابندی بھی درحقیقت جرمن حکومت کا ایک جنون آمیز اقدام ہے جس کا مقصد جرمنی کے آمریت کا شکار معاشرے میں انسانوں کی بیداری کو روکنا ہے۔ اگرچہ جرمن حکومت کی خارجہ پالیسی میں مغربی ایشیا (مشرق وسطی) خطہ پہلی ترجیح کا حامل نہیں ہے لیکن اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی حمایت اس کی خارجہ پالیسی میں پہلی ترجیح کی حامل ہے۔ جرمنی کی سابق صدر مرکل نے 2008ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ (کینسٹ) میں اپنی مشہور تقریر میں جرمنی زبان کی اصطلاح "اشتا آتز قزون” استعمال کر کے اس موقف کا اظہار کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ "اسرائیل جرمنی کے وجود کی دلیل ہے”۔ لہذا اس تناظر میں جرمنی، غاصب صیہونی رژیم کی فوجی، انٹیلی جنس، لاجسٹک، سفارتی اور اقتصادی مدد کو اپنی پہلی ترجیح تصور کرتا ہے اور یوں وہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور لبنان، شام اور یمن میں صیہونی رژیم کی ریاستی دہشت گردی میں برابر کا شریک ہے۔

جرمن حکومت کی جانب سے 2022ء میں ایران میں رونما ہونے والے ہنگاموں میں شرپسند عناصر کی بھرپور حمایت، حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد گروہ قرار دینا، ایران کے جوہری پروگرام کی جاسوسی کرنا اور حزب اللہ لبنان کی جاسوسی کرنا وغیرہ اسی پالیسی کے تحت انجام پانے والے اقدامات ہیں۔ ہمبورگ اسلامک سنٹر پر پابندی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں مغربی حکومتیں ایران کے خلاف مزید جارحانہ رویہ اپنائیں گی۔ مغربی دنیا متعدد بحرانوں سے روبرو ہے جن میں امریکی اثرورسوخ میں زوال، یوکرین جنگ، غزہ جنگ اور مشرق وسطی سے متعلق مغرب کے جیوپولیٹیکل اور جیواکنامیکل آرڈر سے متعلق منصوبوں کی ناکامی، نایاب معدنیات اور انرجی کے میدان میں شدید مقابلہ بازی، نئی طاقتوں کا ابھر کر سامنے آنا، جنوبی ممالک کی طاقت میں اضافہ اور چین، ایران اور روس پر مشتمل مشرقی بلاک کا ابھر کر سامنے آنا شامل ہیں۔

ان بحرانوں کے مقابلے میں مغربی دنیا کا ردعمل جیوپولیٹکل تناظر میں فوجی اور نیم فوجی ہو گا جس کے مغربی حکومتوں پر گہرے اثرات ظاہر ہوں گے۔ درحقیقت، مغربی یورپ (وہی یورپی ٹروئیکا جس نے کئی سالوں تک اس وقت کی ایرانی حکومت کو دھوکہ دیا رکھا اور اسے انسٹکس کا لالی پاپ دکھائے رکھا) ایران کے خلاف جارحانہ رویہ اپنائے گا۔ ہمبورگ اسلامک سنٹر کے خلاف جرمن حکومت کے حالیہ اقدام کی ایک اور اہم وجہ عالمی سطح پر ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی کی تیزی سے بڑھتی محبوبیت اور ان کے تیزی سے پھیلتے افکار بھی ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے ایران کے اندر موجود مغرب نواز حلقے عالمی سطح پر امام خامنہ ای کی شخصیت متعارف ہونے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آج مغربی ممالک میں جہاں کہیں بھی فلسطین کے حق میں آواز اٹھتی ہے، مغربی حکمران اسے رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای کے افکار کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے