نو مئی مقدمات میں "ریلیف” کے بعد عمران خان کو فوجی حراست میں دئیے جانے کا خدشہ کیوِں ؟

2578127-imrancypher-1702570310-878-640x480.jpg

لاہور ہائیکورٹ نے جہاں جمعرات کو عمران خان کا نو مئی کے 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دے دیا ہے وہیں سابق وزیراعظم کی طرف سے انھیں فوجی عدالتوں کے حوالے نہ کرنے سے متعلق درخواست خارج کر دی ہے۔نو مئی سے متعلق مقدمات کے خلاف درخواستوں میں عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ لاہور کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے ریمانڈ دیتے وقت ’ریکارڈ‘ کا درست جائزہ نہیں لیا۔ دوسری درخواست میں انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ انھیں اب فوج کی عدالت کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔

فوجی عدالت سے متعلق عمران خان نے وکیل عزیر کرامات بنڈاری کی توسط سے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے سماعت کی۔ ‏درخواست میں وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کے پولیس سربراہان کو فریق بنایا گیا تھا۔اس درخواست میں عمران خان نے خدشتہ ظاہر کیا کہ نو مئی سے متعلق مقدمے میں انھیں فوج کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ سابق وزیر اعظم نے درخواست میں لکھا کہ ‘’عدالت نو مئی کے کیسز میں میرے مقدمات عام عدالتوں کے پاس رہنے کا حکم دے۔‘ عمران خان نے استدعا کی تھی کہ‏ عدالت ان کی ممکنہ حراست فوج کو دینے کے خلاف حکم جاری کرے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف عمران خان کو نو مئی کے مقدمات میں اتنا بڑا ریلیف ملا کہ ان مقدمات میں نہ صرف عمران خان کی گرفتاری اور جسمانی ریمانڈ کو عدالت نے ختم کر دیا ہے بلکہ ان مقدمات کی ’ٹائمنگ‘ اور ’میرٹ‘ پر بھی سنگین سوالات اٹھائے ہیں تو ایسے میں پھر عمران خان کو یہ خدشہ کیوں پیدا ہوا کہ اب انھیں فوج کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟

یہ عمران خان کو اڈیالہ جیل سے فوجی عدالت بھیجنا چاہتے ہیں

عمران خان کی قانونی ٹیم میں شامل وکیل اشتیاق اے خان نے نمائندہ بصیر میڈیا کو بتایا کہ عمران خان کی درخواست تکنیکی بنیادوں پر خارج ہوئی ہے کیونکہ وکالت نامے پر سیاہی لگ گئی تھی مگر اب یہ درخواست دوبارہ دائر کر دی جائے گی۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ عمران خان کو یہ خدشہ کیوں پیدا ہوا کہ اب انھیں فوج کے حوالے کیا جا سکتا ہے تو انھوں نے کہا کہ عمران خان کے خدشات کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک فوجی عدالتوں کی قسمت کا حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے مگر پھر بھی راتوں رات نو مئی کے مقدمات کے ملزمان کا فوجی عدالتوں سے ’ریمانڈ‘ لے لیا جاتا ہے۔ان کے مطابق 13 جولائی کو عمران خان کی عدت کیس میں بریت کے بعد انھیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے فوج کی حراست میں منتقل کرنے کا خدشہ ہے۔

عمران خان کی قانونی ٹیم کے رکن کے مطابق سابق وزیراعظم کو تمام بڑے مقدمات میں ریلیف ضمانت یا بریت کی صورت میں مل چکا ہے جس میں نو مئی سے متعلقہ 12 مقدمات، توشہ خانہ، عدت کیس اور القادر ٹرسٹ کیس شامل ہیں۔اشتیاق اے خان کے مطابق نیب کی طرف سے قائم کردہ ایک نیا توشہ خانہ ریفرنس بالکل خلاف قانون ہے اور یہ بھی عدالتوں میں زیادہ دیر تک زیر التوا نہیں رہ سکے گا۔وکیل رہنما صباحت رضوی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے خلاف ایک سال بعد مقدمات اگر قائم کیے جا سکتے ہیں تو پھر ایسے خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں۔صباحت رضوی کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن ٹریبونلز اور خصوصی عدالتوں میں جو ججز تعینات کیے ہیں وہ ان حلقوں کی مرضی کے نہیں تھے جس وجہ سے اب وہ عمران خان کے مقدمات کو بھی ان عدالتوں سے فوجی عدالتوں میں لے جا سکتے ہیں۔ان کے مطابق ’ان فوجی عدالتوں کی اپنی قانونی حیثیت پر کئی سوالیہ نشانات ہیں، جہاں فیصلے کسی کو سن کر یا سمجھ کر نہیں کیے جاتے۔‘

یاد رہے کہ گذشتہ سال نو مئی کے بعد آرمی چیف کی زیر قیادت کور کمانڈرز کے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوجی تنصیبات اور اہلکاروں پر حملوں میں ملوث افراد کے خلاف فوج کے متعلقہ قوانین بشمول آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی اور اس کے بعد سے فوج کی جانب سے فوجی عدالتوں کے بارے میں دیے گئے بیانات میں کہا جاتا رہا ہے کہ آرمی سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار افراد کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق ہی نمٹا جا رہا ہے۔گذشتہ سال اکتوبر میں سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائل کی اجازت دینے والی آرمی ایکٹ میں موجود شق ٹو ون ڈی ہی کالعدم قرار دے دی تھی اور حکم دیا کہ تمام افراد کے خلاف مقدمات عام فوجداری عدالتوں کے سامنے چلائے جائیں گے۔

دسمبر میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بنچ نے اس حکم کو معطل تو کر دیا تھا تاہم یہ بھی کہا تھا کہ جب تک فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا اس وقت تک فوجی عدالتیں کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں سنا سکتیں۔نو مئی کے واقعات میں جن 103 افراد کے مقدمات قانونی طریقہ کار مکمل کرنے کے بعد فوجی عدالتوں میں بھجوائے گئے تھے ان میں سے اب تک 20 افراد کو سزا مکمل ہونے کے بعد رہا کیا جا چکا ہے۔گذشتہ برس نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پُرتشدد واقعات ہوئے تھے جن میں مشتعل مظاہرین نے راولپنڈی میں واقع جی ایچ کیو کے باہر احتجاج کیا تھا اور لاہور میں واقع جناح ہاؤس پر حملہ کر کے اسے نذرِ آتش کیا گیا تھا۔

رواں ماہ 22 جولائی کو اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان نے 190 ملین پاؤنڈ کے کیس کی سماعت کے موقع پر گذشتہ برس نو مئی کے واقعات پر جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ بھی کیا ہے۔صحافیوں سے گفتگو کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی گرفتاری کی صورت میں کارکنان سے فوج کے ہیڈ کوارٹر یعنی جی ایچ کیو کے سامنے پُرامن احتجاج کرنے کا کہا تھا۔ان کے اس بیان کے بعد حکومتی ترجمانوں اور ناقدین نے اسے عمران خان کا اعتراف قرار دے رہے ہیں جبکہ عمران خان نے اس بیان کی مزید وضاحت اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی پوری تاریخ میں تشدد کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد عمران خان کے خدشات میں اضافہ ہوا

سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین کا ماننا ہے کہ عمران خان کے خدشات میں اضافہ فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد ہوا جس میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بنوں میں فائرنگ کے واقعے کو نو مئی کے واقعات سے جوڑا۔پاکستانی فوج کے ترجمان نے صوبہ خیبرپختونخواہ کے شہر بنوں میں ہونے والے احتجاج کے بارے میں کہا تھا کہ ’جمعے کو بنوں میں تاجروں کے امن مارچ’ میں کچھ منفی عناصر اور مسلح افراد شامل ہو گئے تھے جن کی فائرنگ سے لوگ زخمی ہوئے۔‘فوجی ترجمان نے مزید کہا تھا کہ ’یہ کیوں ہوا؟ یہ اس لیے ہوا کیونکہ آپ کا جو قانونی نظام ہے، عدالتی نظام ہے اگر یہ 9 مئی کے سہولت کاروں، منصوبہ سازوں کو ڈھیل دے گا، جب آپ انھیں کیفرِ کردار تک نہیں پہنچائیں گے تو ملک کے اندر انتشار اور فسطائیت مزید پھیلے گی۔‘

یاد رہے کہ 19 جولائی کو تاجر برادری نے سیاسی جماعتوں اور دیگر تنظیموں کے ہمراہ شہر میں امن و امان کے قیام کے لیے احتجاج کیا تھا اور اس مظاہرے کے دوران فائرنگ اور بھگدڑ سے ایک شخص ہلاک اور تقریباً 25 افراد زخمی ہوئے تھے۔رواں برس سات مئی کو بھی ایک پریس کانفرنس میں مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ’اگر نو مئی کرنے اور کروانے والوں کو سزا نہ دی گئی تو کسی کی جان، مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں رہیں گے۔اشتیاق اے خان کے مطابق جمعرات کی سماعت کے دوران عمران خان کے خلاف نو مئی کے مقدمات سے متعلق جو ججز نے ریمارکس دیے اس کے بعد اب یہ مقتدر قوتوں کو پتا چل گیا ہے کہ وہ ان مقدمات بھی عمران خان کو زیادہ عرصے سلاخوں کے پیچھے نہیں رکھ سکتے۔

زاہد حسین کے مطابق عمران خان کو جو ریلیف ابھی تک ملا ہے وہ ایک قانونی معاملہ ہے کہ جب ایک شخص قید میں ہے تو پھر مزید قید میں رکھنے کے لیے کیسے مقدمات قائم کیے جا سکتے ہیں۔تاہم ان کے مطابق ’عمران خان کو فوج کی حراست کا خطرہ اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ فوجی عدالتیں ابھی تک موجود ہیں انھیں ختم نہیں کیا گیا ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے